ڈیری

پاکستان میں ڈیری فارمنگ کے مسائل اور انکاحل

پاکستان میں ڈیری فارمنگ کے مسائل اور انکاحل

دودھ ایک مکمل غذا ہے۔ اس میں انسان کی جسمانی ضروریات کے تمام اجزاء مناسب مقدار میں موجود ہیں۔ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے یہاں دودھ کا فی کس استعمال عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مقابلے میں کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ملک میں دودھ کی کم پیداروار ہے، جس کی بنیادی وجوہات تلاش کرتے ہوئے انہیں حل کرنا بیحد ضروری ہے۔
پاکستان میں دودھ دینے والے جانوروں کی بہت اچھی نسلیں موجود ہیں، لیکن غلط بریڈنگ پالیسی کی وجہ سے یہ نسلیں تباہ ہورہی ہیں۔ اکثر کسان مادہ جانور کو کسی بھی نسل کے بیل کے ساتھ رکھنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ایس ے موقع پر اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ بیس کا تعلق کون سی نسل سے ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت کیا ہے؟ دوسری جانب پاکستان میں مصنوعی نسل کشی کی کامیابی کا تناسب انتہائی کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ٹیکنیشن کا اپنے کام میں مہارت حاصل نہ کرنا ہے، جس کے نتیجے میں مادہ تولید کو صحیح طورپر محفوظ نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کسان مصنوعی نسل کشی کو چھوڑکر روایتی طریقہ استعمال کرتے ہیں۔
اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے اسٹاف کی مکمل طور پر درست تربیت ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ ہماری دیسی نسلوں کو بچانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کا کسی دوسری نسل کے جانور کے ساتھ ملاپ نہ کیا جائے۔
پاکستان میں فارم کی سطح پر بچھڑوں پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی لحمیات کی ضروریات پوری نہیں ہوپاتیں اور بچھڑوں کی نشوونما کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ ایسے جانوروں کی زندگی کے ساتھ ساتھ ان دودھ کی پیداواری صلاحیت بھی کم ہوجاتی ہے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وجہ سے ہر سال تقریبا ۹ ارب روپے کا معاشی نقصان ہوتا ہے۔ اگر ہم بھینس اور گائے کے بچھڑوں کو سائنسی طریقوں سے پالیں تو ایک بچھڑا زیادہ پیدآور ہوسکتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جانوروں کو ان کے جسمانی وزن کے مطابق خوراک دی جائے اور بچھڑوں پر دوسرے جانوروں کی طرح مکمل توجہ دی جائے۔
پاکستان میں مویشیوں کی متوازن خوراک کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ بہت سارے کسان ونڈا کھلانے کا مطلب صرف کھل کھلا دینا سمجھتے ہیں جو کہ مکمل طور پر غلط ہے۔ مویشیوں کو جو چارہ دیا جاتا ہے وہ اکثر مقدار اور معیار دونوں لحاظ سے درست نہیں ہوتا۔ ایسے چارے کی غذائی قدر بالکل کم ہوتی ہے، جبکہ موجودہ دور میں پاکستان میں پالے جانے والے مویشیوں میں تقریباً ستائیس فیصد توانائی اور پینتیس فیصد سے زائد لحمیات کی کمی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہائبرڈ بیج درآمد کیا جائے یا ملک کے اندر پیدا کیا جائے۔ اس کے علاوہ مویشیوں کی غذا میں پھلی دار اور غیر پھلی دار فصلوں کو ملا کر استعمال کرنے سے بھی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق مویشیوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے ضروری ہے کہ کسی علاقے کی آب و ہوا کے مطابق پورا سال اگنے والے چارے متعارف کرائے جائیں جبکہ چارے کا خمیر یعنی سائیلیج اور چارے کا اچار بناکر بھی غذائیت کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں ڈیری فارمنگ تاحال کمرشل نہیں کی جاسکی، جس کی وجہ سے یہ کام عموماً کم آمدنی والے افراد ہی کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں مویشی پالنے والوں کی اکثریت نے ۳ سے ۴ جانور رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے اکثر کسان ان پڑھ ہیں جس کے نتیجے میں وہ مویشی پالنے کے جدید طریقوں کو اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔ اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ کوئی بھی پالیسی بناتے وقت چھوٹے کسانوں کی مدد کی طرف خاص توجہ دی جائے اور انہیں عملی مشقوں اورلیکچرز کے ذریعے تربیت دی جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں ڈیری فارمنگ کو صنعت کا درجہ دیا جائے اور اس شعبے میں ہونے والی تحقیق کو کسانوں تک پہنچایا جائے تو ڈیری فارمنگ میں نمایاں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں صنعتوں کے قرضوں میں شرح سود ڈیری فارمنگ کے مقابلے میں کم ہیں۔
پاکستان میں مویشیوں کی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ ہے جبکہ ان میں سے کچھ بیماریاں جانوروں کی موت کا سبب بن جاتی ہیں اور کچھ ان کی پیداوار کو کم کرتی ہیں۔ ایسی بیماریوں کی وجہ سے علاج کے اخراجات اور دودھ میں کمی مویشی پال حضرات کیلئے معاشی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اس سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ مویشیوں کیلئے حفاظتی ٹیکوںں کے پروگرام پر عمل کیا جائے اور اندرونی و بیرونی کرموں کا خاتمہ کیا جائے۔
آج کل مویشی پال حضرات کو دودھ سے مطلوبہ منافع حاصل نہیں ہوتا، بلکہ زیادہ سے زیادہ منافع پرچون کی سطح پر دودھ بیچنے والوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ دکاندار حضرات کسان سے دودھ ۳۰ روپے فی لیٹر خریدتے ہیں اور ۵۰ سے ۶۰ روپے فی لیٹر فروخت کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مویشی پال حضرات کو حاصل ہونے والا منافع نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ایسے مسائل حل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پورے سال کیلئے دودھ کی ایک قیمت مقرر کی جائے اور دودھ بیچنے کا روایتی نظام ختم کیا جائے۔ اس کے علاوہ مویشی پال حضرات کی معاشی حالت بہتر بنانے کیلئے یونین کونسل کی سطح دودھ جمع کرنے کے سینٹر قائم کئے جائیں اور مویشی پال حضرات کو دودھ کی نقد ر قم دی جائے۔
ان سب مسائل کے علاوہ منافع بخش ڈیری فارمنگ کیلئے توسیعی سہولتوں کی بھی ضرورت ہے، جس کے ذریعے مویشی پال حضرات کو جدید طریقوں سے روشناس کروایا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسی سہولیات کا فقدان پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ڈیری پر ہونے والی تحقیق کسانوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ مویشی پال حضرات کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے زیادہ دودھ پیدا کرنے کی طرف متوجہ کیاجائے۔ اس کے علاوہ مویشیوں کی بیماریوں اور حفاظتی ٹیکوں کے بارے میں معلومات کو بھی ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے مویشی پال حضرات پہنچایا جائے۔