مزید باغبانی

جھنگ کی زرعی اراضی پر سٹرابری کی کاشت

ضلع جھنگ کی زرعی اراضی گندم، دھان اور کماد کی عمدہ کاشت کے لیے مشہور ہے لیکن اب چند سالوں سے زرعی ادویات اور اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان کاشتکاروں کا رحجان سٹرابری کی کاشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

دریائے چناب کے قریب زمین پر پھیلے سبز پتوں کے درمیان موجود سرخ پھل دور سے ہی پُرکشش نظر آتے ہیں جنہیں دیہات کی عورتیں اور لڑکے توڑ کر ڈبوں میں بھرنے کی کوششوں میں مصروف ہوتے ہیں۔سرد اور درمیانے درجہ حرارت پر موزوں اس پھل کی جھنگ جیسے گرم علاقے میں کامیاب کاشت نے زرعی ماہرین کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔ضلع میں اس پھل کو متعارف کروانے کا سہرا رستم نامی زمیندار کے سر ہے جنہوں نے سب سے پہلے سال 2012ء میں دریائے چناب کے کنارے جھنگ روڈ پر اپنی ایک ایکڑ اراضی پر سٹرابری کاشت کی تھی۔سُجاگ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے انھوں نے بیج اور مزدور صوبہ خیبر پختون خواہ کے علاقے سوات سے منگوائے تھے۔”ان مزدوروں کو پہلے سیزن کے چھ ماہ کے لیے یہیں رہائش دی گئی جنہوں نے فصل کی اگائی کے ساتھ ساتھ دیگر مقامی کسانوں کو اس کی تربیت بھی دی۔”

ان کے مطابق اگلے سال انھوں نے دس ایکڑ اراضی پر سٹرابری لگائی جس کی پیداوار اور منافع کی شرح کو دیکھتے ہوئے دوسرے کاشتکاروں نے اپنی زمینوں پر اس پھل کی کاشت شروع کر دی ہے۔چالیس سالہ عبدالحق بھی اب سٹرابری کی کاشت کر رہے ہیں اور اس کی پیداوار سے کافی مطمئن ہیں۔فصل کی کاشت کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ اس کے لیے پہلے درجے کی زرعی زمین ضروری ہے دوسرے درجے یا سیم تھور والی زرعی زمین پر سٹرابیری کی کاشت کامیاب نہیں ہوتی۔ان کے مطابق “زمین کی تیاری کے بعد اکتوبر کے آخری ہفتے میں اس کے بیچ بوئے جاتے ہیں جبکہ جنوری میں پودوں پر پھل لگنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ عمل اپریل کے مہینے کی دس تاریخ تک جاری رہتا ہے۔”ان کا کہنا تھا کہ فصل کے لیے زمین میں پوٹاش کا زیادہ مقدار میں ہونا لازمی ہے جبکہ پانی اور دھوپ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔”سخت سردی یا سخت گرمی سٹرابری کی دشمن ہے، فصل کی بڑھوتری کے لیے معتدل سرد مرطوب آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔”

انھوں نے بتایا کہ مناسب ماحول فراہم کرنے کے لیے پودوں کے اوپر پولی تھین شیٹ چڑھائی جاتی ہے جو درجہ حرارت کو کنٹرول کرتی ہے اورسٹرابری کی چمک نمایاں ہو جاتی ہے۔ان کے مطابق پودوں پر دو سے تین سپرے ہوتے ہیں تاہم جب پھل لگنا شروع ہو جاتا ہے تو ہر سات دن بعد سپرے کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک ایکڑ فصل پر ڈیڑھ لاکھ روپے کے قریب خرچ آتا ہے جبکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی تین سے ساڑھے تین لاکھ تک ہوتی ہے۔”اس پھل کی کامیاب پیداوار میں میری اور باقی زمینداروں کی اپنی محنت ہے اس بارے میں محکمہ زراعت نے کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا۔”ان کا کہنا ہے کہ ایک دن میں تیس کلو تک یہ پھل فروخت کرلیتا ہوں اس کے علاوہ اس کا ملک شیک بھی فروخت کر رہا ہوں جسے یہاں سے گزرنے والے مسافر بہت پسند کرتے ہیں۔