زرعی خبریں

’ مِنی بجٹ ‘ دعوؤں سے دور مجبوریوں کے قریب

سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔۔۔ اور یہ بات ہمارے دیس واسیوں کو اب تو بہت اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہوگی۔

قومی اسمبلی کے درودیوار بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ ابھی کچھ عرصے پہلے وہی معزز رکن جو اعداد وشمار کے ذریعے یہ بتاتا تھا کہ حکومت کی جانب سے کس طرح بلاضرورت منہگائی کی جا رہی ہے۔ اب وہی قومی خزانے کا وزیر ہے اور ارزانی تو دور کی بات، منہگائی کا جن قابو میں ہی آتا ہوا محسوس نہیں ہو رہا۔

تب یہ بتایا گیا تھا کہ ہماری کم زور معیشت کو سہارا دینے کے لیے دراصل اُس وقت کے ’’لٹیرے حکم رانوں‘‘ کی لوٹی ہوئی دولت اور بدعنوانیاں ہیں، اس کی راہیں بند کرنا ہوں گی اور بس، سارا مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔۔۔!

ابھی کچھ دن پہلے تک تو ببانگ دہل کہا گیا کہ:

’تبدیلی‘ تو آلینے دو، ہم اس ملک کو ایک کروڑ نئی ملازمتیں اور 50 لاکھ گھروں کے تحفے دیں گے!

پھر ’تبدیلی‘ آ ہی گئے، نئے وزراگئے، گورنر اور صدر بھی بدلے گئے۔۔۔

نئے وزیراعظم نے بھی حلف اٹھاتے ہی سادگی کا اعلان کیا، عالی شان سرکاری اِملاک کے حوالے سے اہم فیصلے بھی کیے۔۔۔ جس سے بہت مثبت تاثر پیدا ہوا۔ بہت اچھا فیصلہ تھا کہ وزیراعظم ہائوس کو جامعہ بنا دیا جائے اور گورنر ہائوس بھی عوام کے لیے کھول دیے جائیں۔۔۔ مگر 98 فی صد غریب عوام کو اپنی بنیادی ضروریات سے روزانہ ہی سابقہ پڑتا ہے، اگر بالائی سطح پر ایسے اقدام کے بعد منہگائی کا جن انہیں اِسی طرح انہیں کچلتا رہے گا تو یہ اِن کے لیے شدید مایوسی کا موجب ہوگا۔

عوام ابھی ایک روز پہلے گیس منہگی ہونے کی ’تبدیلی‘ سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے منتخب ایوان میں منی بجٹ کے ذریعے مزید منہگائی کا طبل بجا دیا ہے۔۔۔ اگر غور کریں تو یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آنے والے دنوں کی جو تصویر بن رہی ہے وہ پہلے سے کسی طرح بھی اچھی معلوم نہیں ہو رہی۔۔۔!

کہنے کو ابھی صرف سگریٹ، موبائل اور پرتعیش گاڑیوں پر ٹیکس لگایا گیا ہے، ماہرین معیشت اور ناقدین نان فائلر کو ٹیکس گرفت میں لانے اور ساتھ ساتھ انہیں خریدوفروخت میں چھوٹ دینے پر بھی بات کر رہے ہیں۔۔۔ مگر 98 فی صد عوام شاید اس سے بے پروا ہیں۔۔۔ وہ ابھی ’گیس بم‘ سے ہی دہلے ہوئے ہیں اور اپنے وزیرخزانہ کی باتوں سے بننے والے مستقبل سے خوف زدہ ہوئے جا رہے ہیں۔۔۔ اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ گیس منہگی ہونے سے گھریلو صارفین پر کس قدر اثر پڑے گا اور اس کے صنعتی اثرات کیا مرتب ہوں گے۔۔۔ کارکنوں کے روزگار سے لے کر اشیا کی منڈی میں فروخت تک۔۔۔ بالآخر یہ بار بھی غریب اور متوسط طبقے کی جیب پر ہی آئے گا!

ٹرانسپورٹ میں گیس کے گراں بار کو شمار کریں تو مسافر بسوں میں چند روپے کے اضافے کے بعد ہر کرائے میں اتنے ہی روپے بڑھا دیے جاتے ہیں۔۔۔ جس سے براہ راست غریب اور نچلا طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ نجی شعبے میں بے روزگاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برسوں سے تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں اور الٹا آجران اپنے منافع میں کمی کا ڈھنڈورا پیٹ کر ملازمین کی چھانٹیاں کر رہے ہیں۔

منی بجٹ کا تعارف کراتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ’’قرضے لینے کے باوجود ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں اور اس وقت ہمارے پاس دو ماہ کی برآمدات کے بھی ذخائر نہیں بچے۔ ہم بالکل دہلیز پر کھڑے ہوئے ہیں اور صورت حال ایسی ہے کہ اگر فیصلے نہ کیے تو بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘

اسد عمر خسارے کے باب میں فرماتے ہیں کہ یہ تخمینے سے بڑھ گیا ہے اندازہ 4.1 کا تھا اور پہنچ 6.6 تک گیا۔ اسی طرح چلتے رہے تو خسارہ 7.2 فی صد تک پہنچ سکتا ہے جس کا ملک کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ چند ماہ کے اندر ڈالر میں 20 روپے تک اضافہ ہوا، خدانخواستہ اگر یہ ذخائر مزید گرے تو روپے کی قدر مزید کم ہوسکتی ہے اور منہگائی میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے۔

منی بجٹ میں ای او بی آئی کے پینشنرز کی پینشن میں اضافہ، کراچی کے لیے ترقیاتی پیکیج، پیٹرولیم لیوی پر اضافہ ختم کرنا جیسے بہت اچھے اور خوش آئند اقدامات بھی ہیں، ٹیکس چھوٹ کی شرح بھی برقرار رکھی گئی ہے، جس سے بہ ظاہر ’منی بجٹ‘ سے متوسط طبقے پر براہ راست ضرب پڑتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی، لیکن آگے کیا ہوگا، وزیر خزانہ کی باتوں سے اس کے گہرے خدشات پیدا ہونے لگے ہیں۔ ڈیم بنانے کے لی چندہ مہم پہلے ہی جاری ہے۔۔۔ عوام ملک سے باہر منی لانڈرنگ اور بدعنوانیوں کے ذریعے جمع ہونے والی دولت کی واپسی کے منتظر ہیں۔۔۔ سرمایہ داروں اور مال دار طبقے کی ٹیکس چوریوں کے رکنے کا خواب دیکھتے ہیں۔۔۔ عوام کی آنکھوں میں اچھے ماحول کے سبب بیرون ملک سے آنے والے سرمائے کے ثمرات کے خواب بھی تعبیر مانگتے ہیں۔۔۔

پی آئی اے اور اسٹیل ملز کے وفاق کی جانب قرضوں کی صورت اسد عمر کے الفاظ میں یہ ہے کہ ’ملازمین کا ویلفیئر فنڈز کے 40 ارب روپے سے زائد رقم رکی ہوئی ہے، مزدوروں کے بچوں کی فیسیں تک ادا نہیں ہو پار ہیں۔ اسٹیل ملز میں بیواؤں کی پنشن بند ہے۔۔۔ صورت حال اتنی بری ہے کہ لوگ خودکُشیوں پر مجبور ہیں۔‘

یوں بھی ہمارے ہاں ’بجٹ‘ مستقبل کے تخمینوں اور ترقیوں کی حکمت عملی سے زیادہ منہگائی کی وجہ سے معروف سمجھا جاتا ہے۔۔۔ حالاں کہ بنیادی ضروریات کی چیزوں کی منہگائی جب ہونا ہوتی ہے، ہوجاتی ہے۔ بجٹ ناحق بدنام ہے، لیکن اب ’منی بجٹ‘ بھی اپنے قبیل کے اس منفی تاثر کو اور قوی تر کرنے کا باعث بنا ہے ۔ اس بار نئی حکومت نے باقی ماندہ مالی سال کے لیے بھی بجٹ کا سہارا لیا ہے۔

منی بجٹ کے بارے میں شکایات اور خدشات اپنی جگہ، لیکن نئی حکومت کو جن مسائل کا سامنا ہے ہمیں انھیں بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ عوام ہوں یا ماہرینِ معیشت حکومت کے مسائل اور مجبوریاں سمجھتے ہیں اور اسے وقت دینے پر یقین رکھتے ہیں، تاہم حکومت کو ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے ٹھوس اور دوررس اقدامات کرنا ہوں گے، جن کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں۔

’’بجٹ پر نظرثانی کے نتیجے میں منہگائی کا کوئی طوفان نہیں آنے والا‘‘

پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم (ممتازماہر معاشیات)

ممتاز ماہرمعاشیات پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم حکومت کے پیش کردہ مِنی بجٹ کے بارے میں کہتے ہیں:

سابق حکومت کے اقدامات کی وجہ سے موجودہ حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ن لیگ کی حکومت صرف اتنے مہینوں کا بجٹ دیتی جتنے مہینے حکومت نے قائم رہنا تھا، لیکن انہوں نے پورے سال کا بجٹ دے کر آنے والی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں ۔ تاہم یہ ممکن نہیں تھا کہ موجودہ حکومت سابق حکومت کے پیش کیے گئے میزانیے کو ہی لے کر چلتی، بجٹ پر نظرثانی کے بنا کوئی چارہ نہیں تھا۔ سب سے پہلی بات میں یہ کہوں گا کہ بجٹ پر نظرثانی کے نتیجے میں منہگائی کا کوئی طوفان نہیں آنے والا۔ قیمتوں پر بہت معمولی اثر پڑے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ منی بجٹ دینا ناگزیر تھا ۔

بجٹ کے نئے حقائق کے بارے میں جو تضادات سامنے آرہے ہیں پہلے ان پر بات ہوجائے۔ حکومت نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی اجازت دی ہے، یہ اقدام میری سمجھ سے باہر ہے۔ یوریا کھاد مقامی طور پر تیار ہوتی ہے تو پھر باہر سے منگوانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے ادائیگیوں کے توازن پر منفی اثر پڑے گا۔ قدرتی گیس کے تجارتی استعمال کے ریٹ بڑھا دیے گئے ہیں جس سے بجلی کی قیمت بھی بڑھے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اندرون ملک یوریا کھاد کی قیمت بھی بڑھ جائے گی کیوںکہ اس میں گیس کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور پھر آپ باہر سے بھی یوریا درآمد کر رہے ہیں۔ دوسرا تضاد یہ ہے کہ ایک طرف حکومت کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف نان فائلرز کو پراپرٹی خریدنے کی اجازت دے رہی ہے۔ میرے خیال میں نان فائلرز کو کوئی سہولت نہیں دینی چاہیے۔ نان فائلر ہی زیادہ تر کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں۔ پھر فائلرز پر ودھ ہولڈنگ ٹیکس کا کوئی جواز نہیں جو ختم کیا جانا چاہے۔

میرے خیال میں ٹیکس دہندگان کے لیے آمدنی کی شرح میں کمی درست اقدام نہیں۔ گذشتہ حکومت نے جو حد چار لاکھ مقرر کی تھی وہی درست تھی کیوںکہ اس سے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف ملا تھا۔ منی بجٹ میں جو ترقیاتی پروگرام میں کٹوتی ہوئی ہے وہ دراصل صوابدیدی فنڈز اور ارکان اسمبلی کو ملنے والی ترقیاتی گرانٹس کی رقوم ہیں۔ یہ بالکل درست اقدام ہے۔

گیس کی قیمتوں میں جو اضافہ ہو ا ہے وہ بھی بالکل درست اقدام ہے، یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ یہ بھی درست بات ہے کہ سلنڈر میں جو گیس ملتی ہے اس کی قیمت کنکشن کے ذریعے ملنے والی گیس سے کم ہونی چاہیے، کیوںکہ سلنڈر آپ کو خود جاکر بھروانا پڑتا ہے۔

سستے گھر بنانے کا منصوبہ بہت اچھا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ گھروں کا معیار بہت اچھا ہو یہ نہ ہو مکین کہ اپنے گھروں تلے دب کر مارے جائیں۔ حکومتی اقدامات سے یہ بات بھی محسوس ہو رہی ہے کہ حکومت پر چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی لابی اثر انداز ہو رہی ہے جب کہ عوام کی کوئی لابی نہیں ہوتی، اس لیے حکومت ہی عوام کے مفادات کو دیکھتی ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وزارت اطلاعات مخالفین کے منفی پراپیگنڈا کو زائل کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ وزارت خزانہ تو اپنا کام ٹھیک طرح کر رہی ہے لیکن میڈیا پر منہگائی کا شور مچا کر منفی تاثر پیدا کیا جا رہا ہے، حالاںکہ ایسا حقیقت میں نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ حکومتی اقدامات کا درست تاثر عوام تک پہنچانے کے اقدامات پر توجہ دے۔

’’بجٹ ترامیم مزدور دشمن ہیں‘‘

ناصر منصور(ڈپٹی جنرل سیکریٹری، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن)

مزدور راہ نما اور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصرمنصور نے بجٹ ترامیم پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: آج پیش کی گئی بجٹ ترامیم مزدور دشمن ہیں اور اس سے صرف ایک عام آدمی نہیں بل کہ بڑے صنعت کار اور سرمایہ دار بھی متاثر ہوں گے۔ موجودہ حکم رانوں نے تبدیلی کا نعرہ لگاکر عوام سے ووٹ لیے، لیکن ان کے عملی اقدامات اس کے بالکل برعکس ہیں۔

پروٹوکول نہ لینے، وزیر اعظم ہائوس، گورنر ہائوس کو عوام کے لیے کھول دینے یا وزیر اعظم ہائوس کی گاڑیوں کو نیلام کردینے سے عام آدمی کو ریلیف نہیں ملے گا۔ آپ بجٹ میں عوام دوست ترامیم کرکے عام آدمی کو ریلیف پہنچا سکتے تھے، لیکن آپ نے بجلی، گیس کی قیمتیں بڑھا دیں، سبسڈی بڑھا دی۔ ایک مزدور کی جس کی تنخواہ پہلے ہی چودہ ، پندرہ ہزار روپے تھی آپ نے بجلی گیس کے ٹیرف میں اضافہ کرکے اس کی جیب سے ہزار، پندرہ سو روپے اضافی ویسے ہی نکال لیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بجٹ حکومت پاکستان کے بجائے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا ہے۔

حکومت نے ان دونوں مالیاتی اداروں کو خوش کرنے کے لیے یہ ترامیم پیش کی ہیں۔ ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت کو پہلے ہی بنگلادیش، بھارت اور دیگر ممالک کی جانب سے مسابقت کا سامنا تھا۔ کیوںکہ بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ اور بڑھتے ہوئے ٹیکسز کی وجہ سے ہماری مصنوعات کی قیمتیں پہلے ہی زیادہ تھیں، لیکن آپ نے گیس کی قیمتیں بڑھا کر ان کی مزید تباہی کا سامان پیدا کردیا ہے، کیوں کہ گیس تو ٹیکسٹائل انڈسٹری کی اہم ضرورت ہے۔

صرف پنجاب میں ہی ٹیکسٹائل کی صنعت ختم ہونے سے پانچ لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ جی ہم نے برآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی ہے، ایکسپورٹ انڈسٹری کو پانچ ارب روپے کا ریلیف دے دیا ہے، یوریا کی قیمتوں میں استحکام کے لیے 7 ارب روپے کی سبسڈی منظور کی گئی ہے، لیکن دوسری جانب آپ تباہ حال صنعتوں کو ریلیف دینے کے اور تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حکومت نے مزدوروں کے لیے 8 ہزار 276 گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن کیا اکیس کروڑ کی آبادی میں مزدور صرف آٹھ ہزار ہی ہیں؟

رضوان طاہر مبین