چاول

دھان کی کاشت کیلئے جدید ٹیکنولوجی متعارف کروادی گئی

چاول کی بذریعہ بیج براہ راست کاشت کی جدید پیداواری ٹیکنولوجی سے دھان کے کاشتکاروں کو سالانہ ۴ سے ۵ ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔

 گزشتہ دنوں لاہور کے قریب واقع رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو کے اعلیٰ افران کی جانب سے مریدکے نارووال روڈ پر آدھیاں کے قریب دھان کی بذریعہ بیج پنیری کی تیاری کے بغیر براہ راست کاشت کیلئے لگائے گئے کھیتوں کا معائنہ کیا گیا۔
اس موقع پر ایک تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے پارب کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر مبارک علی نے بتایا کہ پنجاب ایگریکلچر ریسرچ بورڈ (پارب) کی جانب سے رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو کو ۱ کروڑ ۳۹ لاکھ روپے کی لاگت کے ایک تحقیقی منصوبہ ’’چاول کی پنیری کی تیاری کے بغیر بیج سے بغیر پانی کھڑا کئے چاول کی کاشت کی ترویج‘‘ کے لئے فنڈز مہیا کئے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبہ کی کامیاب تکمیل کے نتیجہ میں تیار کی گئی دھان کی اس جدید پیداواری ٹیکنولوجی کے ذریعے دھان کی بیج سے براہ راست کاشت کی جاتی ہے، جس سے کھیت میں پودوں کی تعداد بڑھنے سے نہ صرف پیداوار میں عام کاشت کی نسبت ۶ تا ۸ من فی ایکٹر اضافہ ہوتا ہے بلکہ لیبر کے اخراجات میں بھی کمی آتی ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی نے بتایا کہ دھان کی کاشت کیلئے متعارف کرائی گئی یہ جدید ٹیکنولوجی مشینی اور روایتی کاشت کی نسبت سستی ہونے کے ساتھ ساتھ کم وقت میں بہترین نتائج بھی دیتی ہے اور اس سے ۱۵ سے۲۰ فیصد تک پانی کی بچت بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھان کی کاشت کیلئے یہ ٹیکنولوجی کمرشلائزیشن فیز میں داخل ہو چکی ہے۔
اس موقع پر رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد اختر نے تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تحقیقی منصوبہ معاشی اعتبار سے انتہائی منافع بخش ہے جس کے تحت دھان کی براہ راست کاشت میں ۴۳ من فی ایکٹر سپر باسمتی کی پیداوار سے ۵۳ ہزار ۷۵۰ روپے آمدنی حاصل ہوئی ہے، جبکہ عام طریقہ کاشت میں ۳۵ من پیداوار سے ۴۳ ہزار ۳۷۵ روپے آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح تقریباً ۱۰ ہزار ۳۷۵ روپے زائد آمدنی صرف براہ راست کاشت سے حاصل ہوئی، جبکہ اس جدید طریقہ کاشت میں چاول کے معیار پر بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ انہوں نے بتایا کہ اس ٹیکنولوجی کے ذریعے آئندہ چند سال میں ۱۰ لاکھ ایکٹر رقبہ پر دھان کی کاشت ممکن ہوسکے گی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر زراعت نے شرکاء کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے پنجاب ایگریکلچر ریسرچ بورڈ کو ایک ارب روپے کے وسائل مہیا کرنے کے علاوہ ریسرچ انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے دوگنی رقم مختص کی گئی ہے، تاکہ زرعی تحقیق و ترقی کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی تحقیقاتی بورڈ کمپیٹیٹیوگرانٹ سسٹم (سی جی ایس) کے تحت ڈیمانڈ ڈریون ریسرچ کیلئے ۵۳ اہم منصوبوں کیلئے ایک ارب روپے فراہم کئے گئے ہیں اور مالی سال ۱۳۔۲۰۱۲ء کیلئے پنجاب ایگریکلچر ریسرچ بورڈ کو زرعی تحقیق کے نئے و جاری منصوبوں کی مد میں ۴۵ کروڑ روپے مالیت کے بجٹ کی بھی منظوری دی گئی ہے۔
اس تقریب میں صوبائی وزیر زراعت، پارب کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر مبارک علی، ڈائریکٹر رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کالا شاہ کاکو ڈاکٹر محمد اختر، ڈائریکٹر جنرل زراعت (ریسرچ) ڈاکٹر نورالاسلام اور محکمہ زراعت کے اعلیٰ افسران کے علاوہ کاشتکار امتیاز گل ڈھلوں، کاشتکار احمد فاروق ڈھلوں اور دیگر کاشتکاروں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔