مویشی

جانوروں کی دیکھ بھال اور رہائشی ضروریات

جانوروں سے بہتر کارگردگی حاصل کرنے کے لیے ہاں خوراک کا خیال رکھنا ضروری ہے وہاں ان کی رہائشی ضروریات کو بھی مدنظرر کھنا ضروری ہے تاکہ جانوروں کو موسمی تغیر و تبدل سے محفوظ رکھا جاسکتے۔ جانوروں کا معیاری رکھ رکھاﺅ اور دیکھ بھال ڈیری فارم کی معیشت پر مثبت طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جانور ایک مخصوص حد تک درجہ حرارت اور نمی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان حدود میں کمی بیشی ان پر اعصابی دباﺅ پیدا کردیتی ہے جس کو زائل کرنے کے لیے وہ ا پنی توانائی بروئے کار لاتے ہیں جس سے ان کی پیداواری صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور نتیجتاً فارم کی معیشت متاثر ہوتی ہے۔

جانوروںکی ضروریات کے لیے رہائشی ضروریات کا انتظام کرتے وقت درج ذیل امور کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

1۔ ڈیری فارم کے لیے جگہ کا انتخاب کرتے وقت ایسی جگہ منتخب کریں جو کہ پختہ سٹرک سے قریب ہو، زمین اردگرد کے مقابلے میں قدرے بلندی پر وقع ہوتا کہ پانی کے نکاس میں سہولت رہے۔ زمینی ساخت ایسی ہونی چاہیے کہ اس پر کیچڑ نہ ہو یعنی مٹی زیادہ چکنی ہو کیونکہ ایسی زمین میں بارشوں کی وجہ سے دراڑایں بن جاتی ہیں اور عمارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

2۔ رہائش گاہ کا رخ شمالاً جنوباً ہونا چاہے ۔ ایسا کرنے سے دھوپ بہتر طور پر شیڈ میں داخل ہوسکے گی جوکہ نہ صرف فرش خشک رکھنے میں مددگار ہوگی بلکہ جراثیم مارنے میں بھی بہت موثر ثابت ہوگی جس سے جانور صحت مند رہے گا۔

3۔ حفظان صحت کے اصولوں کے پیش نظر فارم کی تعمیر ایسے علاقے میں کی جانی چاہے جہاں قریب کوئی انسانی آبادی نہ ہوتا کہ متعفن ہوا اور دیگر حشرات الارض کی بہتات سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

4۔ عمارت تعمیر کرتے وقت تو سیعی نقطہ نظر سے اتنی گنجائش ضرور رکھیں جو کہ آئندہ برسوں میںآپ کی سہولیت مہیا کر سکے۔

5۔ جانوروں کی بہتر افزائش اور بہتر نشونما کیلئے جانوروں کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔

6۔ جانوروں کی رہائش کی عمارت کی اقسام مندرجہ ذیل ہیں۔

٭ ایسی عمارت جن میں جانوروں کو کھلا رکھا جاسکتا ہو۔ اس قسم میں جانوروں کی کھلا رکھا جاتا ہے اور وہ سارا دن اپنی مرضی سے باڑ ے میں گھومتے رہتے ہیں۔ ، دھوپ اور بارش وغیرہ سے بچاﺅ کے لیے جانوروں کو باڑے کے ایک جانب شیڈ مہیا کا جاتا ہے ۔ دودھ دوہنے کے لیے ان جانوروں کو ملحقہ جگہ پر باندھا جاتا ہے جہاں انہیں ونڈا مہیا کیا جاتا ہے جبکہ گھاس اور بھوسہ وغیرہ میں ہی ڈالا جاتا ہے۔

٭ ایسی عمارت جن میں جانوروں کو باندھ کر رکھا جائے۔ اس قسم کی عمارت میں جانور کو باندھ کر رکھا جاتا ہے لیکن کبھی کبھار رورزش یا چرائی کے لے باہر لے جایا جاتا ہے۔ اس قسم کی عمارت میں جانوروں کی پیدا واری صلاحیت بہتر طریقے سے اجا گر ہو تی ہے کیو نکہ ہر جا نور کو اس کی ضرو رت کے مطابق خو راک میسر ہو تی ہے جبکہ پہلی والی قسم جن میں جانوروں کو کھلا رکھا جا تا ہے طا قتو ر اور کمزور جا نوروں کو الگ الگ رکھیں تا کہ ان کی پید اوار پر منفی اثرات مر تب نہ ہوں ۔

ایک گا ئے /بھینس کے لئے 40مر بع فٹ چھت ہو ئی اور اس سے د و گنی کھلی جگہ درکا ر ہو تی ہے۔گا ئے بھینسوں کے لئے شیڈ کی تعمیر دو طرح سے کی جا سکتی ہے۔(1)ایسے شیڈ جس میں جا نوروں کے منہ مخالف سمت میں ہوں ۔(2)ایسے شیڈ جن میں جا نوروں کے منہ آمنے سامنے ہوں ۔ڈیری شیڈ میں ایک گا ئے کے لئے3.5فٹ چو ڑی اور 6فٹ لمبی جگہ درکا ر ہوتی ہے جبکہ بھینس کے لئے چوڑائی 3.5فٹ کی بجائے 4فٹ بہتر ہوتی ہے ۔جانو روں کے سامنے دو فٹ چو ڑی کھر لی بنائی جائے جس کے سامنے والی دیو ار ایک فٹ اور بچھلی دیوار 3.5فٹ او نچی ہو ۔کھر لی کی طر ف خو راک ڈالنے کے لئے تین فٹ کا راستہ اور درمیان میں چھ فٹ چو ڑا راستہ موزوں رہتا ہے ۔جا نوروں کی پشت کی جانب 8انچ چو ڑی اور صرف ڈیڑھ سے دو انچ گہر ی نالی اس طرح بنائی جا ئے کہ جا نوروں کے پا ﺅں کو نقصان نہ پہنچے ۔ڈیری شیڈ کی دیو اریں سیمنٹ سے پلستر ہو نی چا ہئیں ۔فرش پر گہر ی گہر ی لکیریں ڈال دینی چا ہئیں تا کہ جا نو ر پھسل نہ سکے ۔ڈیری شیڈ کی دیو اروں کی کم از کم او نچا ئی پا نچ فٹ ہو نی چا ہیئے۔جا نو روں کے پیچھے بنائی گئی نا لی ش یڈ کے با ہر کسی گٹر سے منسلک کریں تا کہ گو بر ،پیشاب وغیرہ اس میں جمع ہو ۔کھیتوں کو پانی لگا تے وقت پانی اس گٹر میں سے گزاریں تا کہ اس میں مو جو د مواد بطور کھا د کھیتوں کی زر خیزی کے لئے استعمال ہو۔
نو زائیدہ بچھڑوں کی دیکھ بھال

نو زائیدہ بچھڑے خصو صی تو جہ کے مستحق ہوتے ہیں کیو نکہ ڈیر ی فا رم کی آئندہ کی معشیت کا سا را انحصار ان پر ہو تا ہے لیکن ہمارے ہاں لا علمی اور کم تو جہ دینے کے با عث بچھڑوں کی ایک بڑی تعداد تقریباً 30سے50فیصد اموات سے دو چا ر ہو جا تی ہے۔فا رمز کی سطح پر اس کی اہم و جو ہات درج ذیل ہیں ۔

٭ بر وقت بو ہلی کا نہ پلا نا

٭ نا ف کی سو زش کے بعد زہر یلے ما دے کا خون میں گر دش کرنا

٭ دو دھ کا ضرورت کے مطابق نہ پلانا

٭ مو سم کی شدت سے عدم بچا ﺅ

٭ اندرونی و بیرو نی کر موں کا حملہ

٭ سفید دست کا عام ہو نا ،جو عام طو رپر گندے بر تنوں میں دو دھ پلانے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے

اس لئے ضرو ری ہے کہ بچھڑوں کی پر ورش اس طریقے سے کیا جائے کہ پیدا ئش کے فو راً بعد بچھڑے کی ناک اور منہ سے آلائشیں وغیر ہ اتا ر کر جسم کوکپڑے سے صاف کریں تا کہ سانس لینے میں آسانی ہو ۔ناف کو جسم سے تقریباً دو انچ کے فا صلے پر کسی صاف ستھرے دھا گے سے گرہ دیں اور نیچے سے کاٹ کر ٹنکچر آیو ڈین لگا دیں تاکہ زخم خراب نہ ہو۔اس کے بعد بچے کو ماں کا دود ھ(بو ہلی) پلائیں ۔دو تین دن بچے کو ماں کے ساتھ رکھنے کے بعد علیحدہ کر دیں اور رو زانہ اس کے وزن کے دسویں حصے کے برا بر دو دھ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے صبح و شام پلائیں ۔دو دھ پلانے کے لئے جو برتن استعمال کئے جائیں وہ بالکل صاف ہوں اور اگر بچہ ماں کے تھن سے برا ہِ راست دو دھ پی رہا ہو تو پلانے سے پہلے تھنوں کو اچھی طرح صاف پانی سے دھو ئیں تا کہ تھنوں کو لگی ہوئی مٹی وغیر ہ بچے کے معدے میں جا کر بیماری کا سبب نہ بنے ۔پہلے چھ ہفتوں کے لئے وزن میں اضافے کے سا تھ سا تھ دودھ کی مقدار بڑھاتے جائیں اور چھ ہفتوں کے بعد دو دھ بتد ریج کم کر کے تین ما ہ کی عمر پر بچے کا دو دھ مکمل طو ر پر بند کر دیںجب بچہ چا ر ہفتے کا ہو جائے تو دو دھ کے علاوہ اسے اعلیٰ قسم کا سبز چا رہ اور متوازن ونڈ ا فراہم کریں اور تین ماہ کی عمر میں دو د ھ بند کر کے سبز چا رے اور ونڈے کی مقدار بڑھا دیں۔
بچھڑوں کی پر ورش سے متعلقہ دیگر امور

1۔بچھڑوں کا وزن کرنا (2)سینگ ختم کرنا(3)شناختی نمبر لگا نا(4)اضافی تھنوں کا کا ٹنا(5)بیرونی کر موں سے بچاﺅ (6)اندرونی کر موں سے بچا ﺅ
بچھڑوں کی خریداری اور رہا ئش

کٹڑے یا بچھڑے فربہ کرنے کے لئے مقامی منڈیوں سے خریدے جا سکتے ہیں اس کے علاوہ دو ر دراز علاقوں سے جا نور نسبتاً سستے داموں مل سکتے ہی ۔جا نور خرید تے وقت درج ذیل با توں کا خیا ل رکھنا چا ہیئے۔

(i) تند رست ہوں اور بہت لا غرنہ ہوں ۔

(ii) ان کا وزن اپنے ہم عمر جا نوروں سے زیا دہ دکھا ئی دیتا ہو کیو نکہ ایسے جا نو روں کی شرح بڑھو تری نسبتاً بہتر ہوتی ہے۔

(iii) جا نور کی اوسط عمر 10تا 14ما ہ ہو ایسے جا نور بیماری کے خلا ف کا فی قوت مد افعت رکھتے ہیں اور آسانی سے دستیاب بھی ہو جاتے ہیں

(iv) بڑھو تری کے لحاظ سے بچھڑے کٹڑوں سے بہتر ثابت ہوئے ہیں اور مو سمی حالات سے کم متا ثر ہوتے ہیں بچھڑوں کی قیمت خرید کٹڑوں سے زیا دہ ہوتی ہے اور یہ بکتے بھی بہتر قیمت پر ہیں۔

(v) جا نوروں کی خریدو فروخت جسمانی وزن کے مطابق ہو نی چا ہیئے کیو نکہ اس سے نقصان کا احتمال کم ہو تا ہے۔

(vi) جا نور خرید کم از کم 20دن تک دو سرے جا نوروں سے علیحدہ رکھیں تا کہ اگر ان میں کسی بھی بیما ری کے اثرات ہو ں تو و ہ دو سرے جا نوروں تک نہ پہنچ سکیں۔

(vii) ان کی شنا خت کے لئے کا نوں میں (Ear Tag)یا نمبر لگا دینے چا ہیئں

(viii) مختلف بیما ریوں مثلاً گل گھوٹو،منہ کھر کے لئے حفاظتی ٹیکے بر وقت لگا ئیں اور اندرونی کر موں کے لئے کرم کش دوائی استعمال کرنی چا ہیئے۔

(ix) فربہ کرنے کے لئے رکھے گئے جا نوروں کے لئے ہلکا ،صاف اور تا زے پانی کی 24گھنٹے مو جو دگی بہت ضرو ری ہے۔

(x) نئے خر یدے گئے جا نور چو نکہ چا رہ کھانے کے عا دی ہو تے ہیں لہذا انہیں چا رہ سے بتد ریج متوازن غذا کی طرف لا نا چا ہیئے۔10سے15دن کے بعد جا نوروں کو مکمل طو ر پر راشن پر لا یا جا سکتا ہے۔
بچھڑوں کی رہا ئش گا ہ

چھوٹے بچھڑوں کی بہتر طو ر پر پر و رش اور نگہداشت کے لئے ضرو ری ہے کہ ان کو بڑے جا نوروں سے علیحدہ رکھا جا ئے ۔اس مقصد کے لئے علیحدہ باڑے تعمیر کئے جائیں جن میں کمرے بھی مہیا کئے جائیں ۔کمروں کے فر ش پر پرالی ڈالی جائے تا کہ بچھڑے آرام دہ ما حول میں رہ سکیں۔چا رہ کھانے اور پانی پینے کی تمام سہو لتیں بھی مہیا کی جائیں ۔کمرے کو حتی الا مکاں خشک رکھا جائے تاکہ بیما ریوں پر قابو پا یا جا سکے ۔چھوٹی عمر کے بچھڑوں کے لئے جن کی عمر دو سے تین ما ہ تک ہو رہا ئش گا ہ بنا تے وقت 20سے30مر بع فٹ جگہ فی جا نور کے حساب سے مہیا کر نی چا ہیئے جبکہ اس سے بڑی عمر کے بچھڑوں کے لئے 30سے35مر بع فٹ جگہ در کا ر ہو تی ہے۔
خشک اور حاملہ جانوروں کے لیے رہائش

ان جانوروں کے لیے رہائش کے متلعق منصوبہ بندی کرتے وقت مندرجہ ذیل امور کو مدنظر رکھنا چاہیے:

۱۔سردی اور دھوپ کے وقت آرام کی جگہ

۲۔کھلا پھرے کے لیے جگہ

۳۔چارہ وغیر کھانے کے لیے بندوبست

اس قسم کی رہائش مہیا کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جانوروں کو باندھا نہ جائے بلکہ وہ ایک باڑہ میں کھلا پھریں اور وہیں اپنی ضرورت کے مطابق چارہ، پانی وغیرہ حاصل کر سکیں۔سخت سردی، دھوپ اور بارش کے وقت ملحقہ چھپر کے نیچے جانے کی سہولت ہو۔ جہاں فرش پر پرالی وغیرہ پڑی ہو تا کہ جانور اس کے اوپر آرام و سکوں سے بیٹھ، لیٹ کر وقت گزار سکیں۔ یہ لوازمات مہیا کرتے وقت جانوروں کے لیے اتنی جگہ مہیا کرنی چاہیے کہ وہ وہاں پر بھیڑ(Over crowding) محسوس نہ کریں۔ اس مقصد کے لیے چھپر۱(Shed)کے نیچے 4.6سے6.9مربع میٹر(50سے75مربع فٹ) فی جانور اور کھلے باڑے میں8.35سے11.15مربع میٹر (90سے120مربع فٹ) فی جانور کے حساب سے جگہ مہیا کرنی چاہیے۔ چھپر کا فرش پکا اور پرالی کی موٹی تہ سے ڈھکا رہنا چاہیے۔ چھپر کے نیچے کُھرلی وغیرہ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اگر مویشی کھرلی پر کھڑے ہو کر چارہ وغیر ہ کھائیں گے تو گوبر، پیشاب سے پرالی جلدی گندی اور نم دار ہو جائے گی جو کہ جانوروں کے لیے باعث تکلیف ہو جائے گی۔

کھلے باڑے میں، چارے کے لیے کھرلی اور پانی پینے کا انتظام کرنا ضروری ہے۔ کھرلی کے ارد گرد اور پانی پینے والی جگہ کے چاروں طرف پکا فرش بنانا ضروری ہے ورنہ وہاں اتنا کیچڑ ہو جاتا ہے کہ جانور کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہو گا اور اس طرح نہ تو وہ آرام سے چارہ وغیرہ کھا سکے گا اور نہ ہی پانی پی سکے گا۔ کئی لوگ باڑے کے تمام صحن کو پکے فرش کی صورت بنا دیتے ہیں تا کہ صفائی وغیرہ آسانی سے ہو سکے مگر ایسے فرش سخت گرمی و سردی کے موسم میں موزوں نہیں ہوتے۔ قابل عمل اور مفید بات یہی ہے کہ باڑے کے صحن کا کچھ حصہ پکا کریں اور کچھ حصہ کچا، کیونکہ جانور کچی جگہ پر بیٹھ کر زیادہ سکون محسوس کرتا ہے۔ ہماری آب و ہوا کے مطابق اگر باڑے میں کہیں کہیں ایسے سایہ دار درخت لگا دئیے جائیں جو گرمیوں میں چھاو ¿ں مہیا کر یں اور سردیوں میں پتے جھڑ جانے سے کھلی دھوپ لگنے دیں۔ ایسے حالات میں جانور موسم کی شدت سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ درکت کی چھاو ¿ں میں جانور چھپر کے نیچے والی چھاو ¿ں کی نسبت زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں اور خاص کر شیر دار جانور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

باڑے کی چار دیواری اگر اینٹوں کی بجائے تار اور لوہے یا سیمنٹ کے کھمبوں سے بنائی جائے تو گرمیوں میں یہ گہ مقابلتاً ٹھنڈی رہتی ہے۔
حاملہ جانوروں کے آخری ایام میں رہائشی سہولیات

جب جانور حمل کے آخری ایام میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے لیے علیحدہ اس قسم کی رہائش کا بندوبست کرنا پڑتا ہے جہاں اسے متواز اور زودہضم خوراک کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ رہائشی آرام مہیا ہو۔ وضع حمل کے وقت خاص طور پر جانور کو پرسکون، آرام دہ اور الگ جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں جانور شور وغیرہ پسند نہیں کرتا۔ ان تمام مقاصد کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل قسم کی رہائش مہیا کرنی چاہیے:

ایک حاملہ گائے یا بھینس کے لیے ایسا کمرہ جس کی پیمائش 3×2.43میتر(10×8فٹ)ہو، کافی ہے۔ کمارے میں میں روشنی، تازہ ہوا، پینے کے پانی اور چارے وغیرہ کے لیے کھرلی کا انتظام ہونا چاہیے۔ کمرے کا فرش پکا اور اس کمرے میں پرالی کی موٹی تہ موجود رہنی چاہیے تا کہ وضع حمل کے وقت گائے اور بچے کو تکلیف نہ ہو۔ خصوصاً سردی کے موسم میں اگر فرش پر پرالی نہ ہو تو بچے کو ٹھنڈ لگ جانے اور بیمار ہونے کا بہت احتمال ہوتا ہے۔

اس کمرے کے ساتھ جانور کے کھلا پھرنے کے لیے ایک چھوٹے سے باڑکی بھی ضرورت ہے جس کی پیمائش 2.43×1.82میٹر (8×6فٹ) ہونی چاہیے۔اگر ریوڑ میں جانور زیادہ ہوں تو ایک وقت میں زیادہ حاملہ جانور وضع حمل کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں مذکورہ بالا رہائشی سہولت کے کئی ایک یونٹ بنائے جا سکتے ہیں جو کہ ایک مشترکہ عمارت کی صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
دودھ دوہنے کے لیے جگہ کا انتخاب

ڈیری فارمنگ کے سلسلے میں جراثیم سے پاک دودھ کا پیدا کرنا انسانی صحت کے لیے ضروری ہے کیونکہ ایسے دودھ کو دیر تک بغیر کسی خاص تردد کے گاہکوں تک پہنچانے میں سہولت رہتی ہے۔ اس لیے دودھ دوہنے کی جگہ کو اگر خاص منصوبے کے ماتحت بنایا جائے تو یہ جانوروں کی رہائش کے بھی کا م آسکتی ہے۔ جہاں ان کو گرمی اور سردی کے موسم میں باندھ کر خوراک بھی کھلائی جا سکتی ہے اور وہاں دودھ بھی نکالا جاسکتا ہے۔ ایسے شیڈ دو ہی ہوتے ہیں۔ مگر ایک میں جانور منہ در منہ کھڑے ہوتے ہیں اور دوسرے میں جانور ایک دوسرے کی طرف دم کے رخ کھڑے ہوتے ہیں۔

ایسے شیڈوں میں ماسوائے جانور کے کھڑا ہونے والی جگہ کے، باقی تمام چیزوں کے ناپ درج کر دئیے گئے ہیں۔ جانور کے کھڑا ہونے کی جگہ کی پیمائش کا انحصار جانور کی جسامت پر منحصر ہے۔ مثلاً گائے جسامت میں بھینس کی نسبت قدرے چھوٹی وہتی ہے۔ لہٰذا اس کو مقابلتاً کم جگہ درکار ہو گی۔ یعنی گائے کو1.37سے1.68میٹر(43.5سے5.5فٹ) لمبی اور 1.07 سے 1.22میٹر (3.5سے4فٹ) چوڑی جگہ درکار ہے اور بھینس کے لیے1.68سے1.83میٹر (5.5سے6فٹ) لمبی اور 1.22سے1.37میٹر(4.5فٹ) چوڑی جگہ چاہیے۔

دودھ دوہنے کے شیڈ میں جب جانور باندھے جاتے ہیں تو ان کی سانس میں جو نمی خارج ہوتی ہے۔ اس سے شیڈ کے اندر ہوا میں رطوبت بڑھ جاتی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک بالغ جانور ایک گھنٹے میں تقریبا0.34لیٹر(12اونس)آبی بخارات کی صورت میں خارج کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے موسم گرما میں خاص طور پر جانوروں پر بہت دباو ¿ (Stress) پڑتا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے بلکہ ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس غیر معمولی رطوبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے شیڈ میں تازہ ہوا کے لیے بڑی بڑی جالی دار کھڑکیاں ہونی چاہئیں تا کہ مکھیوں اور رطوبت سے بچا جا سکے۔ ایسے شیڈوں میں دودھ نکالنے کا عمل گوہاتھوں سے سر انجام دیے ہیں لیکن مشینوں سے دودھ نکالنے کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے۔ جہاں10سے20جانور ایک ہی وقت میں بذریعہ مشین دوھے جا سکتے ہیں۔ اگر جانور کم ہوں تو چھوٹی دودھ دوہنے والے مشین بھی دستیاب ہے جس سے ایک وقت میں ایک جانور سے ہی دودھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ بالا شیڈوں کے ساتھ دودھ اکٹھا کرنے اور ریکارڈ کرنے کا کمرہ بھی درکار ہے۔ دودھ دوہنے اور خوراک سے فراغت کے بعد جانور کسی ملحقہ کھلے باڑے میں بھی منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ جہاں وہ رات بھر یا دن بھر موسم کے لحاظ سے کھلے پھریں اور آزادی سے آرام کریں۔ اس قسم کے بندوبست سے ان کی کارکردگی پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔