مالٹا

ترشاوہ پھلوں کی کاشت

ترشاوہ پھلوں کے آبائی وطن جنوب مشرقی ایشیا، چین اور ہندوستان ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ترشاوہ پھلوں کی کاشت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وطن عزیز ترشاوہ پھلوں کی پیداوار میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ وطن عزیز میں1950کے اوائل میں پھلوں کی باقاعدہ باغبانی کا آغاز ہوا۔
ہمارے ملک میں ترشاوہ پھلوں کا رقبہ اس وقت192800ہیکٹرز ہے جن سے سالانہ پیداوار2001800ٹن حاصل ہو رہی ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں زیر کاشت رقبہ182100ہیکٹرز اور سالانہ پیداوار1930100ٹن حاصل ہو رہی ہے (بحوالہ شماریات پاکستان2012-13) سرگودھا، بھلوال، منڈی بہاؤالدین، فیصل آباد، لیہ، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، وہاڑی اور خانیوال میں ترشاوہ پھل وسیع پیمانے پر کاشت ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ پھل برآمد کے حوالے سر فہرست ہے۔ اس پھل کی737 ہزار ٹن مقدار برآمد کر کے32067.7ملین روپے کا قیمتی زر مبادلہ حاصل کیا گیا ہے۔ اس کی برآمد کو بڑھا کر ہم مزید زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اب جبکہ پنجاب میں300 سے زائد گریڈنگ پلانٹس لگ چکے ہیں جس کی وجہ سے ترشاوہ پھلوں کی کاشت ایک صنعت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ترشاوہ پھلوں کی پیداوار اور کوالٹی بہتر بنانے کی طرف خصوصی دی جائے۔
پاکستان میں مالٹا مندرجہ ذیل علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے:
پنجاب

ضلع سرگودھا، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ساہیوال، لاہور، ملتان، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، میانوالی
سندھ

ضلع سکھر، نواب شاہ، خیر پور
خیبرپختونخواہ

پشاور، مردان، سوات، ہزارہ، نوشہرہ، صوابی
بلوچستان

سبی، مکران، کیچھ
طبی و غذائی اہمیت

دنیا میں ترشاوہ پھلوں کی ترویج و ترقی میں ان کی طبی و غذائی اہمیت کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ ترشاوہ پھل میں حیاتین کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن میں حیاتین ج اور ب قابل ذکر ہیں۔ یہ مفرح قلب ہیں، زود ہضم و مصفا خون ہیں، انسانی جسم میں کینسر جیسی خطرناک بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت رکھتے ہیں۔ گریپ فروٹ ہائی بلڈ پریشر، یرقان اور کولیسٹرول کیلئے مفید ثابت ہو چکا ہے۔
آب و ہوا

جغرافیائی لحاظ سے ترشاوہ پھل نیم استوائی علاقوں میں سطح زمین سے تقریباً2500فٹ بلندی تک کاشت کیے جا سکتے ہیں۔ موزوں ترین درجہ حرارت 25سے35ڈگری سینٹی گریڈتک ہے۔ پھول کھلنے پر بارشیں نقصان دہ ہیں۔ سال کے زیادہ تر حصہ میں نمی درمیانہ درجہ تک ہو اور ایسے علاقے جہاں دن اور رات کے درجہ حرارت میں زیادہ فرق ہو، راتیں ٹھنڈی ہوں‘ موزوں ہیں۔
زمین

ترشاہ باغات کی کامیاب کاشت کیلئے اچھے نکاس والی ہلکی میرا زمین موزوں ہے جس کی تعدیلی شرح7تک ہو۔ کلراٹھی و سیم زدہ زمین موزوں نہیں اور نہ ہی ایسی زمین جہاں نمکیات1000پی پی ایم سے زیادہ ہوں۔ زمین کے اوپر والی سطح سے8-10فٹ گہرائی تک ریت، کنکر اور کیلشیم کاربونیٹ کی تہہ وغیرہ نہ ہو۔ سطح زمین سے پانی10فٹ گہرائی تک ہو۔
افزائش نسل

ترشاوہ پھلوں کے تخمی پودے صحیح النسل نہیں ہوتے اس لیے نباتاتی طریقہ پیوند کاری ٹی نما چشمہ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ میدانی علاقوں میں ترشاوہ پھلوں کیلئے جٹی کھٹی کا روٹ سٹاک استعمال ہو رہا ہے۔ اس پر پیوند کیے ہوئے پودے کافی حد تک خشک سالی اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم یہ روٹ سٹاک گیلی نمدار اور بھاری زمین میں کامیاب نہیں ہوتے۔

روٹ سٹاک کا پھل جب برداشت کے قریب ہو جائے تو اسے توڑ کر اکٹھا کرلیں اور چند روز کے لیے سایہ میں رکھنے کے بعد جب پھل کچھ نرم ہو جائے تو بیج نکالنے کیلئے تیز چاقو سے پھل کو گولائی میں اتنا کاٹیں کے پھل کے درمیان موجود بیج زخمی نہ ہو۔ اس کے بعد پھل کو گھما کر دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کے گودے سے ہاتھ کے ساھ بیج نکال لیں یا بیج نکالنے والی مشین کے ذریعے بیج نکال لیں۔ اس کے بعد بیج کو دو حصے بھل اور ایک حصہ ریت کے آمیزہ میں اچھی طرح رگڑیں تا کہ بیج کے اوپر سے تمام کھٹاس اور دیگر مادے جو بیج کی روئیدگی میں رکاوٹ بنتے ہیں انہیں اچھی طرح ختم کیا جا سکے۔ اس کے بعد بیج کو پانی میں اچھی طرح دھو لیں، جو بیج پانی میں تیرتے نظر آئیں انہیں ضائع

کر دیں کیونکہ ان میں روئیدگی کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس کے بعد بیج کو ایک دو دن سایہ دار جگہ پر رکھ کر خشک کریں۔ مزید یہ کہ بیج کا چھلکا پھٹنےنہ پائے ورنہ روئیدگی بری طرح متاثر ہو گی۔ بیج کو بونے سے پہلے پھپھوندی کش زہر ٹاپسن ایم یا ریڈومل گولڈ یا میٹالیکسل ضرور لگائیں۔ بیج کی بوائی کے وقت اگر یہ زہر نہ لگائی جائے تو نرسری ابتدائی مراحل میں ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہو سکتی ہے۔ بیج بونے کا بہترین وقت اگست ستمبر ہے تاہم فروری مارچ میں بھی بیج کاشت کیا جا سکتا ہے۔ جب ان پودوں کی عمر ایک سال ہو جائے تو ترشاوہ پھلوں کی مطلوبہ اقسام پر ٹی نما چشمے کے ذریعے پیوند کی جاتی ہے۔
داغ بیل

پودے قابل اعتماد نرسری سے خریدیں جو مناسب صحت مند اور کیڑے مکوڑے اور بیماریوں سے پاک ہوں اور سفارش کردہ روٹ سٹاک پر9تا12انچ بلندی پر پیوند کیے گئے ہوں۔ مربع نما طریقہ سے ایک ایکڑ رقبہ پر90تا132پودے اگائے جا سکتے ہیں۔ داغ بیل کا کام ترشاوہ پودے باغ میں لگانے سے دو ماہ پہلے کر لینا چاہیے۔

ترشاوہ پھلوں کے پودے سال میں دو مرتبہ موسم بہار (فروری، مارچ) اور موسم خزاں (ستمبر، اکتوبر) میں لگائے جاتے ہیں ۔ پودوں کی نشاندہی کے بعد ان جگہوں پر3x3x3فٹ کے گڑھے کھودے جاتے ہیں۔ گڑھا کھودتے وقت اوپر کی ایک فٹ مٹی ایک طرف اور باقی 2فٹ نیچے والی مٹی علیحدہ رکھ دی جاتی ہے۔ یہ گڑھا تین چار ہفتے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اوپر والی ایک فٹ مٹی ایک حصہ گوبر کی گلی سڑی کھاد اور ایک حصہ بھل اچھی طرح ملا کر گڑھوں کو بھر دیں اور اس کے بعد پانی لگا دیں تا کہ مٹی اچھی طرح بیٹھ جائے اور وتر آنے پر پودے کی گاچی کے مطابق گڑھا کھود کر پودے کو اس میں اچھی طرح لگا دینا چاہیے اور آبپاشی کر دیں۔ پودے ہمیشہ بعد از دوپہر لگائیں۔
آبپاشی اور غذائی ضروریات

پھل بننے اور بڑھنے کے موسم میں گرمی ہوتی ہے اس لیے ان دنوں میں پودوں کی آبپاشی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ گرمیوں میں 7-10دن کے وقفہ سے اور سردیوں میں25تا30دن کے وقفے سے آبپاشی کریں۔ ٹیوب ویل کا پانی باغات کو ہرگز نہ لگائیں۔ پانی کی کمی کی صورت میں نالی دار سسٹم سے آبپاشی کرنی چاہیے۔ اس طریقہ میں پودوں کو نالی کے ذریعے ملا دیا جاتا ہے مگر پودے کی جسامت کے مطابق اس کے گرد دَور بنا لیا جاتا ہے اور جوں جوں پودا بڑا ہو دَور کو بھی کھلا کر دیا جاتا ہے۔ پودے کے تنے کو مٹی چڑھا دی جاتی ہے تا کہ پانی تنے کو نہ لگے۔
ترشاوہ باغات کی کامیاب کاشت کیلئے نامیاتی مادہ کی مقدار2تا2.5فیصد ہونی چاہیے اس لیے گوبر کی کھاد پھول آنے سے دو ماہ قبل دسمبر جنوری میں دینی چاہیے جبکہ کیمیائی کھادوں میں فاسفورس اور پوٹاشیم کی پوری مقدار اور نائٹروجن کی آدھی مقدار پھول آنے سے قبل وسط فروری تک ڈالنی چاہیے۔ باقی ماندہ نائٹروجن کی مقدار پھل بننے کے بعد وسط اپریل تک ڈال دیں۔
باغات میں فصلوں کی کاشت

ترشاوہ باغات میں بارآوری شروع ہونے سے پہلے عرصہ میں مختلف فصلوں کی کاشت کرنا سود مند ہے کیونکہ اس سے نہ صرف معقول آمدنی حاصل ہوتی ہے بلکہ پودوں کی صحت اور بڑھوتری پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔ باغ جڑی بوٹیوں سے صاف رہتا اور زمین کی حالت بھی بہتر رہتی ہے۔ باغ میں درج ذیل فصلات کاشت کی جاسکتی ہیں:

موسم ربیع مٹر، شلغم، گوبھی ، ٹماٹر، چنے اور جئی وغیرہ

موسم خریف ٹینڈا، کدو،کریلا، پیاز، بھنڈی، مونگ، ماش ، موٹھ اور گوارہ وغیرہ
سفارش کردہ اقسام

ترشاوہ پھل کی بلحاظ گروپ مختلف اقسام کی سفارش کی جاتی ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
مالٹا

مسمی، پائن ایپل، بلڈریڈ، ویلنشیا لیٹ، روبی ریڈ، مارش ارلی، ٹراکو، سلیسٹیانہ اور شکری
سنگترہ

فیوٹرلز ارلی، کنو، سیڈ لیس کنو اور ہنی مینڈرین
گریپ فروٹ

مارش سیڈ لیس، شیمبر، ریڈ بلش اور سٹار روبی
لیموں

کاغذی، چائنہ، تہیٹی، یوریکا، لزبن اور مزیرو
مٹھا

لوکل، پشاوری اور کشمیری
ٹین جیلو

آرلینڈو اور پرل
ٹینجرین

فیئر چائلڈ، فری مونٹ اور ڈینسی
بے قاعدہ بارآوری

ترشاوہ باغات کئی ایک وجوہات کی وجہ سے ایک سال زیادہ پیداوار دیتے ہیں جبکہ اگلے سال پیداوار کم ہو جاتی ہے اس پر قابو پانے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ محکمہ کی سفارشات برائے آبپاشی، کھادیں، ہواتوڑ باڑیں، فصلوں کی مخلوط کاشت، ضرررساں کیڑوں اور بیماریوں کیلئے بروقت اقدامات کیے جائیں اور جس سال پھل بہت زیادہ لگے اس سال ابتداءمیں ہی پھلوں کی چھدرائی(Thining)کر کے پودے کی صحت اور پھل کی مقدار کے توازن کو اعتدال میں لایا جائے۔
پھول اور پھل کا قبل از وقت گرنا

ترشاوہ باغات میں پھول اور پھل کے کیرے کی کئی وجوہات ہیں مثلاً پودے میں خوراک کی کمی، کیڑے یا بیماریوں کا حملہ، پانی کی کمی یا زیادتی اور نامناسب موسمی حالات وغیرہ۔ اس لیے ان مسائل کے حل کیلئے دیکھ بھال کے تمام پہلوؤں جیسا کہ ہوا توڑ باڑیں، کھادیں،کیڑے، بیماریاں اور آبپاشی وغیرہ کو مدنظر رکھنا اور ان کا بروقت استعمال و کنٹرول کرنا چاہیے۔