مزید باغبانی

امرود کی کاشت اور مکمل تفصیلات

امرود ایک اہم سدا بہار پودا ہے۔ اس کی کاشت بہت پرانے وقتوں سے گرم مرطوب اور معتدل آب و ہوا والے علاقوں میں ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے یہ جنوبی امریکہ میں پیرو کے درمیان پایا گیا تھا وہاں سے یہ دنیاکے مختلف ممالک میں پھیلا۔ تقریباً ہر قسم کی زمین اور آب و ہوا میں اگنے کی صلاحیت کی وجہ سے امرود نے ایک اہم تجارتی پھل کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔

پاکستان میں یہ پھل تقریباً پورے پاکستان میں اس وقت45.7ہزار ہیکٹر رقبہ پر اگایا جا رہا ہے اور اس کی مجموعی سالانہ پیداوار340.3ہزار ٹن ہے۔ پنجاب میں اس کی کاشت زیادہ تر شیخوپورہ، قصور، لاہور، شرقبول، سانگلہ ہل، گوجرانوالہ، ملتان، سرگودھا اور فیصل آباد کے اضلاع میں ہوتی ہے۔ جب کہ خیبر پختونخواہ میں کوہاٹ، ہری پور اور بنوں اس کی کاشت کے اہم علاقے ہیں۔ سندھ میں لاڑکانہ اور حیدرآباد ڈویژن میں یہ بکثرت کاشت کیا جاتا ہے۔ امرود کے زیر کاشت رقبہ میں بتدریج توسیع ہو رہی ہے۔

امرود کی اوسط قومی پیداوار اس وقت7.4ٹن فی ہیکٹر ہے جو کہ بہت کم ہے۔ جس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

٭ گرمی کی فصل پر پھل کی مکھی کا حملہ

٭ اچھی نسل کے قلمی پودوں والے باغات کا فقدان

٭ بیج سے اگائے ہوئے پودوں کے باغات

٭ باغات کی نامناسب دیکھ بھال

غذائی اعتبار سے یہ پھل نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس پھل کو حیاتین”ج“ کا بادشاہ اور سستا ماخذ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں حیاتین ”ج“100گرام پھل میں91ملی گرام سے لے کر280ملی گرام تک موجودہوتی ہے۔ جب کہ ترشاوہ پھلوں میں حیاتین ”ج“ کی مقدار صرف30سے60ملی گرام ہوتی ہیں۔
پھل کا غذائی تجزیہ

پانی 82.50 فیصد

کھٹاس 2.45 فیصد

مٹھاس 4.75 فیصد

تحلیل شدہ ٹھوس مادہ 9.73 فیصد

راکھ 0.48 فیصد

اجزائے لحمیہ 1.25 فیصد

روغن 0.52 فیصد

ریشہ 4.45 فیصد

حیاتین”ج“ 260 ملی گرام فی100گرام پھل

لوہا 1.82 ملی گرام فی100گرام پھل

چونا 17.0 ملی گرام فی100گرام پھل

فاسفورس 28.4 ملی گرام فی100گرام پھل

حیاتین ”الف“ 250 انٹرنیشنل یونٹ

اس کے علاوہ امرود میں میں اعلیٰ قسم کی پیکٹن بھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے جو کہ عمدہ کوالٹی کی جیلی بنانے کے کام آتی ہے۔
آب وہوا

امرود کے لیے گرم مرطوب و نیم گرم مرطوب معتدل آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا درخت بہت سخت جان ہوتا ہے ٹھنڈے علاقوں میں بھی اُگ جاتا ہے۔ مگر نیم گرم مرطوب آب و ہوا میں خوب پرورش پاتا ہے۔ چھوٹی عمر کے پودوں کے لیے زیادہ سردی نقصان دہ ہے۔ اس لیے تین سے چار سال کی عمر تک کے پودوں کو سردی سے بچانے کے لیے ڈھانپ دینا چاہیے۔ ہوا روکنے والی باڑیں پودوں کو گرم لو اور سرد ہواؤں کو روکنے میں کافی مدد دیتی ہیں۔ زیادہ بارش پھل کی خاصیت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جس سے پھل پھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔
زمین

امرود کا پودا ہرقسم کی زمین میں اگایا جا سکتا ہے۔ اس کا درخت بھاری زمین سے لے کر ہلکی ریتلی زمین تک اگایا جاتا ہے۔ سیم اور تھور زدہ زمینوں میں بھی کامیاب رہتا ہے۔ مگر دوسرے پھلدار درختوں کی طرح اس کے لیے بھی نرم اور زرخیز زمین بہت موزوں ہے۔
پودے لگانا

امرود کے پودے لگانے کا بہترین موسم اگست ستمبر ہے۔ فروری مارچ میں لگائے گئے پودوں کا جون کی گرمی میں سڑ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پودے لگانے کے فوراً بعد پانی ضرور دینا چاہیے۔ پودے سے پودے کا درمیانی فاصلہ6میٹر رکھنا نہایت ہی موزوں اور ضروری ہے۔
آب پاشی

آب پاشی کا انحصار علاقہ کی آب و ہوا اور زمین کی خاصیت پر ہے چھوٹے پودوں کو سارا سال تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد پانی لگاتے رہنا چاہیے۔ جوان پودوں کو پھل لگنے پر زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔جب پودوں پر پھول آرہے ہوں تو اس قت پانی روک دینا چاہیے۔ جب تک پھل مکمل طور پر سیٹ نہ ہو جائے۔ سردیوں میں ہر ہفہ پودوں کو پانی دینا زیادہ بہتر ہے۔ اس طرح پھل کی کوالٹی بہتر ہوتی ہے اور پھل کورے کے مضر اثرات سے بھی بچ جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امرود کو سال میں12 سے15مرتبہ آبپاشی ضروری ہے۔
کھاد دینا

امرود کے پودے سال میں دو مرتبہ پھل دیتے ہیں۔ اس لیے پودوں کی صحت برقرار رکھنے کے لیے کافی مقدار میں نائٹروجن کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ گوبر کی کھاد سب سے اچھی تصور کی جاتی ہے۔ اس لیے گوبر کی کھاد30سے40کلو گرام فی پودا کے حساب سے دینی چاہیے۔ عام قاعدے کے مطابق گوبر کی کھاد دسمبر جنوری میں دینی چاہیے۔ کھاد دینے سے بیشتر پودے کے پھیلاؤکے مطابق گوڈی کر کے پودے کے چاروں طرف اچھی طرح کھاد بکھیر کر آبپاشی کر دینی چاہیے۔ کیمائی کھادوں میں ایمونیم سلفیٹ اڑھائی سے تین کلو فی پودا یا یوریا سوا ایک تا ڈیڑھ کلو سپر فاسفیٹ اڑھائی تا تین کلو اور پوٹاش کے لیے ایک کلو پوٹاشیم سلفیٹ فی پودا پھول آنے سے پیشتر ڈالیں۔ یہ مقدار جوان پودوں کے لیے ہے۔
افزائش نسل

عام طور پر امرود کی افزائش بیج سے کی جاتی ہے۔ مگر اس طرح اگائے ہوئے پودے اصل درخت سے مشابہ نہیں ہوتے اور ان کے پھل کے طبعی اور کیمیائی خواص اپنے موروثی پودوں سے مشابہ نہیںہوتے اس لیے اس پودے کی نباتاتی افزائش بذریعہ قلم یا گٹی کی جاتی ہے۔

بذریعہ قلم امرود کی افزائش نسل اگرچہ مشکل ہے۔ تاہم تحقیق نے یہ ظاہر کیا ہے کہ80فیصد نمی کے اندر گرین ہاؤس میں اگر درجہ حرارت25ڈگری سنٹی گریڈ رکھا جائے تو 10سے12سنٹی میٹر لمبی، شاخ کے سرے والی قلمیں پتون کے ساتھ تیار کر کے اگر24گھنٹے کے لیے تین پی پی پیکلو بیوڑرازول کے محلول میں قلموں کا نچلا سرا ڈبو کر ریت کے اندر لگائیں تو نوے فیصد قلمیں جڑیں نکال لیتی ہیں۔ تحقیق نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ اگر قلمیں موسم برسات میں لگائیں تو زیادہ جڑیں نکالتی ہیں۔ آٹھ ہفتوں کے بعد ان قلموں کو گرین ہاؤس میں ہی مومی تھیلوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ان مومی تھیلوں میں مٹی، بھل اور اچھی گلی سڑی کھاد کی برابر مقدار کا آمیزہ بھرا جاتا ہے۔ تین ہفتوں کے بعد ان تھیلیوں کو شیڈ ہاؤس میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی داب یا گٹی اور پیوندکاری سے بھی مطلوبہ نسل کے صحیح پودے تیار کیے جا سکتے ہیں۔
شاخ تراشی

عام طور پر امرود کو شاخ تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن چونکہ پھل نئی پھوٹ پر آتا ہے اس لیے تھوڑی سی سالانہ شاخ تراشی کر لینی چاہیے۔ چھوٹی عمر میں پودے کا ڈھانچہ یا ساخت صحیح کرنے کے لیے اور اسے مضبوط بنانے کے لیے اس کی شاخ تراشی ضروری ہے۔ بعض اوقات لمبی اور کمزور شاخوں پر پھل ہوتا ہے وہ بوجھ سے نیچے جھک جاتی ہیں۔ ایسی شاخوں کے سرے کاٹ دینے چاہئیں۔ اس کے علاوہ تنے کے نچلے حصے سے چھوٹی چھوٹی شاخیں پھوٹتی ہیں ان کو بھی کاٹتے رہنا چاہیے۔ فصل کی برداشت کے بعد سوکھی ہوئی، بیمار اور کمزور شاخوں کو بھی کاٹ دینا چاہیے۔ اچھی قسم کا پھل حاصل کرنے کے لیے پھل کی چھدرائی بھی ضروری ہے۔
کیڑوں اور بیماریوں کا تدارک
پھل کی مکھی

امرود کو گرمیوں کی فصل میں سے سب سے زیادہ نقصان پھل کی مکھی پہنچاتی ہے جو کہ پھل کے اندر اپنا ڈنگ داخل کر کے انڈے دیتی ہے۔ جن سے چھوٹی چھوٹی سنڈیاں پیدا ہو کر گودے کو کھانا شروع کر دیتی ہیں اور پھل گل سڑ کر زمین پر گرپڑتا ہے۔اس مکھی کی لمبائی تقریباً5ملی میٹر ہوتی ہے۔ اس کا رنگ کالا اور پیلا ہوتا ہے۔
تدارک

٭ گرے ہوئے تمام پھل اکٹھے کر کے زمین میں دبا دیں۔

٭ امرود کا پھل جب بڑے سائز کا ہو جائے تو میٹا سسٹاکس، ڈائی میکران یا ڈپٹریکس پانی میں ملا کر سپرے کریں۔

٭ سپرے فصل کی برداشت سے 20 دن پہلے بند کردیا جانا چاہیے۔

٭ جنسی پھندوں کا استعمال پھل کی مکھی کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت موزوں ہے۔
تنے کا گڑویں

یہ شاخوں میں سوراخ کر کے ٹہنیوں کے اندر چلے جاتے ہیں ٹہنیاں سوکھ جاتی ہیں۔
تدارک

٭ سوکھی ہوئی ٹہنیوں کو کاٹ دیں۔

٭ میٹاسٹاکس2.5ملی لیٹر فی لیٹر پانی میں ملا کر تین مرتبہ سپرے کریں۔
امرود کا سوکھنا

یہ بیماری گرمی اور کاشتی امور کی بے احتیاطی سے ہوتی ہے۔ جس سے پودا آہستہ آہستہ سوکھنا شروع ہو جاتا ہے۔
تدارک

٭ کاشتی امور کو بروقت سرانجام دیں۔

٭ ریڈومل گولڈ پودے کی عمر کے مطابق سپرے کریں۔
کھادوں کا استعمال

امرود کے پودے سال میں دو مرتبہ پھل دینے ہیں۔ اس لیے پودے کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے کافی نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ گوبر کی کھاد سب سے اچھی تصور کی جاتی ہے۔ گوبر کی کھاد30سے40کلو گرام فی پودا کے حساب سے دینی چاہیے۔ عام قاعدے کے مطابق گوبر کی کھاد دسمبر اور جنوری کے مہینے میںدینی چاہیے۔ عام طور پر درجہ ذیل سفارشات کے مطابق کھاد کا استعمال کرنا چاہیے۔
پودے کی عمر

یوریا ( کلو گرام)

سنگل سپر فاسفیٹ( کلو گرام)

سلفیٹ آف پوٹاش( کلو گرام)

کھاد گوبر ( کلو گرام)

اقسام

پاکستان میں اس وقت امرود کی جتنی بھی مختلف اقسام فروخت کے لیے بازار میں آتی ہیں ان میں ایک بھی خالص اور معیاری نہیں کیونکہ وہ زیادہ تر بیج سے لگائے گئے باغات کی پیداوار ہیں۔ یہاں قسموں کو جو نام بھی دئیے گئے ہیں وہ یا گودے کو مدنظر رکھ کر دئیے گئے یا اس علاقہ کے نام پر جہاں یہ پیدا ہوتا ہے۔ ان اقسام میں سب زیادہ مشہور ”سفیدہ“ ہے۔ اس کا پھل گول، چھلکا صاف اور ذائقہ کافی لذیذ اور میٹھا ہوتا ہے۔ ”چتی دار“ اس کے پھل پر چھوٹے چھوٹے سرخ نشان ہوتے ہیں اس کا ذائقہ بھی لذیذ اور میٹھا ہوتا ہے۔ ”حفصی“ بھی امرود کی ایک قسم ہے اس کا پھل گول اور گودا سرخ ہوتا ہے۔ یہ قسم اتنی میٹھی نہیں۔ ”کریلا“ اس قسم میں پھل کی شکل ناشپاتی سے ملتی ہے۔ اس کا چھلکا کھردرا اور گودے کا رنگ سرخ یا سفید ہوتا ہے۔ امرود کی ایک قسم ”سیڈلیس“ ہے اس میں بیج نہیں ہوتے اس میں پیداوار تھوڑی اور پھل کی شکل بے قاعدہ ہوتی ہے۔ یہ ابھی تک تجارتی پیمانہ پر کاشت نہیں کیا جاتا۔

خیبرپختونخواہ میں امرود کی کاشت ہونے والی اقسام میں گولا اور صراحی شامل ہیں۔
پھل کا توڑنا اور پیداوار

امرود سال میں دو مرتبہ بار آور ہوتا ہے۔ ایک فصل موسم گرما جولائی اگست اور دوسری موسم سرما جنوری فروری میں حاصل ہوتی ہے۔ موسم گرما کی فصل کوالٹی کے لحاظ سے معیاری نہیں ہوتی۔ پکا ہوا پھل چمکدار سرخ یا سفید ہوتا ہے۔ پھل کو توڑنے کے بعد ٹوکریوں میں ڈال کر منڈیوں میں بھیجا جاتا ہے۔

جوان پودے کی اوسط پیداوار 60سے100کلو گرام فی پودا ہے۔ اس کی پیداوار مختلف جگہوں پر مختلف ہوتی ہے۔ پکا ہوا پھل ہفتہ میں دو سے تین بار توڑا جاتا ہے کیونکہ اس کا پھل جلد خراب ہونے والا ہے اس لیے اسے فوراً منڈی بیج دینا چاہیے۔
امرود کی مصنوعات

امرود کی پھل کے طور پر استعمال کرنے کے علاوہ اس سے بہت ساری چیزیں تیار کرنے مثلاً جیم، جیلی، جوس، نیکٹر، ڈبوں میں بند کرنے اور مٹھائی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔