آم

بور کے مرحلہ پر آم کے ضرر رساں کیڑوں کا تدارک

پاکستانی آم ذائقے کے لحاظ سے پوری دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے اور لوگ اسے بڑی چاہت سے کھاتے ہیں۔ اس طرح آم کے باغات باغبانوں کیلئے اچھی آمدنی کا ذریعہ اور قومی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کرنے کے حامل ہیں۔ آم کے باغات سے چاہے کتنی ہی پیداوار حاصل کیوں نہ کر لی جائے لیکن جب تک پھل کے معیار کو قائم نہ رکھا جائے گا اس سے اچھی آمدنی کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ منڈیوں میں آج کل بڑے مقابلے کا دور ہے اور خاص طور پر بین الاقوامی منڈیوں میں پھل کے معیار پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ آم کا پودا اس وقت بور بننے کے بہت اہم مرحلہ سے گزر رہا ہے ۔ اس مرحلے پر آم کے پودے کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت نہایت ضروری ہے۔ آم کے پودوں پر مختلف کیڑے اور بیماریاں حملہ آور ہو کر بور اور پھل بننے کے عمل کو متاثر کرتے ہیں جس سے پیداوار میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔ باغبان حضرات کو چاہیے کہ بور بننے کے مرحلہ پر پودوں کی خصوصی حفاظت کریں اور انھیں ضرر رساں کیڑوں اور بیماریوں کے حملہ سے محفوظ رکھیں تاکہ بہتر پیداوار حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل کیا جا سکے۔

آم کے پھولوں کا جھلساؤ:۔ اس بیماری کے حملہ سے پھول متاثر ہوتے ہیں اور پھل نہیں بنتا جس سے پیداوار میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔ اس بیماری کے حملہ سے پھولوں پر سیاہ رنگ کے دھبے صاف دکھائی دیتے ہیں اور پھول خشک ہو جاتے ہیں۔ بیماری کے حملہ سے عام طور پر پھولوں والی شاخیں بھی ٹیڑھی ہو جاتی ہیں۔ اس بیماری کا کنٹرول اس وقت ضروری ہے جب پھول نکلناشروع ہو جائیں۔ اگر پھول نکلنے کے مرحلہ پر یہ بیماری حملہ آور ہو جائے تو اس کے کنٹرول کیلئے سفارش کردہ سرائیت پذیر ادویات کے استعمال کو ترجیح دیں۔

آم کی سفوفی پھپھوندی:۔ یہ بیماری آم کے پھولوں اور پھل پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے پیداوار میں 90 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ پھولوں پر یہ بیماری سفید پاؤڈر کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے ۔ اس بیماری کے حملہ سے پھول گرنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے پھل نہیں بنتا۔ اسی طرح پھل جب مٹر کے دانے کے برابر ہوتا ہے تو یہ بیماری پھل پر بھی حملہ آور ہوتی ہے جس سے پھل کی جلد پھٹ جاتی ہے اور پھل نیچے گرنے لگتا ہے۔ اس بیماری کے پھیلاؤ کیلئے مناسب درجہ حرارت 10 سینٹی گریڈ سے 30 سینٹی گریڈ تک ہے۔ جبکہ ہوا میں نمی

کا تناسب اس بیماری کے جراثیم اور اس کے پھیلاؤ کیلئے مختلف ہے۔ اس بیماری کا تدارک سرائیت پذیر دوائیوں سے آسانی سے کیا جا سکتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ جب 25 فیصد پھول کھل چکے ہوں تو حفظ ماتقدم کے طور پر محکمہ زراعت (توسیع و شعبہ پیسٹ وارننگ) کے مشورہ سے پودوں پر پہلا سپرے کر یں۔

منہ سڑی کی بیماری:۔ آم کے پودوں میں یہ بیماری پھولوں اور پھل کو خاصا نقصان پہنچاتی ہے۔ پھل پر یہ بیماری بھورے دھبوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور پھل کی جلد خراب ہو کر پھٹنے لگتی ہے۔ پھول کھلنے سے پہلے سفارش کردہ زہر کے سپرے سے اس کا مؤثر تدارک کیا جا سکتا ہے۔

آم کا تیلا:۔ ہمارے باغات میں اس کیڑے کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک جسامت میں بڑی اور دوسری چھوٹی ہوتی ہے۔ بڑی قسم کا رنگ مٹیالا جبکہ چھوٹی قسم کے کیڑے زردی مائل اور نسبتاً زیادہ چست ہوتے ہیں۔ یہ کیڑا زیادہ تر بالغ حالت میں رہتا ہے اس کیڑے کے بالغ اور بچے دونوں پتوں اور شگوفوں کا رس چوستے ہیں۔ حملہ شدہ شگوفے، نرم ٹہنیاں اور پھول مرجھا کر سوکھ جاتے ہیں۔ آم کا تیلا کے تدارک کیلئے پودوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھیں۔ ہوا اور روشنی کے گزر کو بہتر بنائیں تاکہ حملہ کو کم کیا جا سکے۔ بور آنے پر حملہ شدہ ٹہنیوں کی شاخ تراشی بروقت کریں تاکہ وہ بٹور میں تبدیل نہ ہوں۔

آم کے بور کی مکھی :۔ یہ بہت چھوٹے اور مٹیالے رنگ کا کیڑا ہے اور اس کی شکل تھرپس سے ملتی جلتی ہے۔ یہ کیڑا فروری سے اپریل تک حملہ آور ہوتا ہے۔ پھول والی شاخوں کے نکلتے ہی یہ ان پر حملہ کرتا ہے جس سے ان پر نکلنے والے تمام پھول خشک ہو جاتے ہیں۔ بعدازاں پھل بننے پر اس کی سنڈیاں پھل کے اندر داخل ہو جاتی ہیں اور پھل کو اندر سے کھاتی ہیں جس سے پھل گرجاتا ہے۔ اس کیڑے کا مؤثر تدارک یہی ہے کہ اس کو زمین میں ہی ختم کر دیں۔ باغ کی زمین وتر آنے پر پود کے نیچے کَسی پھیر دیں۔ گوڈی ہرگز نہ کریں تاکہ زمین میں موجود سوراخ ااور دراڑیں بند ہو جائیں اور کیڑا باہر نہ نکل پائے۔ مارچ، اپریل میں باغات کی آبپاشی کے بعد جب زمین وتر حالت میں ہو تب درختوں کے نیچے زمین پر محکمہ زراعت (توسیع و پیسٹ وارننگ) کی سفارش کردہ زہریں مناسب وقفہ سے 2 مرتبہ سپرے کریں۔ اس سے زمین میں موجود تمام سنڈیاں تلف ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ وسط اپریل تک پودے کے نیچے پلاسٹک شیٹ بچھانے سے بھی پودوں کو ان کیڑوں کے حملہ سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔