گنا

کماد کی ستمبر کاشت کیلئے جدید سفارشات

کمادکو پاکستان کی زرعی معیشت اور شکر سازی کی صنعت میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔ یہ کاشتکار کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ چارے کے حصول کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ رقبے کے لحاظ سے کماد کا شمار گندم، کپاس اور چاول کے بعد ہوتا ہے۔ کماد کی فصل کاشتکار کی معاشی ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

پاکستان کا شمار رقبہ اور پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر جبکہ چینی کی پیداوار میں چودھویں نمبر پر ہوتا ہے۔صوبہ پنجاب میں گنے کی فی ایکڑ اوسط پیداوار تقریباً 626 من فی ایکڑ ہے۔ ہمارے ملک کے بہت سے کاشتکار گنے کی فی ایکڑ پیداوار 1500 2000- من فی ایکڑ تک حاصل کرر ہے ہیں جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری گنے کی اقسام بہترین پیداواری صلاحیت رکھتی ہیں اور دنیا میں کسی بھی ملک کی گنے کی پیداوار کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ پنجاب میں گنے کی کاشت اور نئی اقسام کی دریافت کیلئے ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے شعبہ کماد کے زرعی سائنسدان دن رات کوشاں ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم ان خامیوں کو کیسے دور کریں جو کہ ہماری فی ایکڑ پیداوار میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ کماد کی پیداوار پر کئی قدرتی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں جن میں عرصہ کاشت بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ستمبر کاشت کے ذریعے نسبتاً زیادہ دورانیہ دے کر ہم اس قدرتی عمل کو پورا کر سکتے ہیں اور چینی کے تناسب کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔

ہم یہاں گنے کی ستمبر کاشت کے حوالے سے اہم پیداواری عوامل کا ذکر کریں گے جن پر عمل کر کے ہم نہ صرف اپنی فی ایکڑ پیداوار اور آمدن بڑھا سکتے ہیں بلکہ ملک میں چینی کے بحران پر قابو بھی پایا جا سکتا ہے۔ کماد کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لیے میرا اور بھاری میرا زمین موزوں ترین ہے جس میں پانی کا نکاس بہتر ہو اور نامیاتی مادہ بھی کافی مقدار میں پایا جاتا ہو۔ البتہ کماد کو ہلکی اور کمزور زمین میں مناسب دیکھ بھال سے کاشت کیا جا سکتا ہے۔ سیم اور تھور والی زمینیں گنے کی کاشت کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ گنے کی جڑیں زمین کے اندر کافی گہرائی تک جاتی ہیں اس لیے کم از کم ایک فٹ گہرائی تک زمین کا تیار ہونا نہایت ضروری ہے کماد کی جڑوں کے مناسب پھیلاؤ اور خوراک کے آسان حصول کے لیے زمین نرم وبھربھری اور خوب ہموار ہونی چاہیے۔ اس لیے زمین کی تیاری گہرا ہل چلا کر کریں اور زمین کی تیاری سے پہلے اچھی طرح گلی سڑی گوبر کی کھاد ڈالیں اور روٹاویٹر چلانے کے بعد دو دفعہ چزل ہل دوہرے رخ چلا کر عام ہل اور سہاگہ سے زمین تیار کریں۔ 

موڈھی فصل میں بھی لائنوں کے درمیان چزل ہل چلا کر کھاد دیں۔ چزل ہل چلانے سے پانی کا نکاس بہتر ہو جاتا ہے اور زمین کے آپس میں پیوست ذرات کھل جاتے ہیں جو کہ کماد کے پودوں کی جڑوں کو گہرائی میں لے جانے کا باعث بنتے ہیں اور زمین سے پانی و خوراکی اجزا کا حصول بہتر ہوجاتا ہے۔ کاشتکار کماد کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لیے زیادہ پیداواری صلاحیت اور چینی کی بافت (ریکوری) والی اقسام انتخاب کریں۔

بیج کا چناؤ لیری اور اچھی فصل سے کریں اور اس مقصد کے لیے مونڈھی فصل ہرگز استعمال نہ کریں۔ لیری فصل کی عمر7 سے 8ما ہ کے درمیان ہونی چاہیے۔ گری ہوئی فصل سے بیج کا انتخاب نہ کریں اس کے علاوہ بیج والی فصل کیڑوں، بیماریوں اور کورے کے مضر اثرات سے محفوظ ہو۔ کماد کے بہتر اگاؤ کے لیے گنے کا اوپر والا حصہ بیج کے لیے استعمال کریں۔ گنے کے اوپر والے حصے سے تین یا چار آنکھوں والے سمے بنائیں۔ گنے کی بیماریوں مثلاً کانگیاری، رتاروگ، چوٹی کی سڑاند، موزیک اور پوکا وغیرہ سے بچاؤ کے لیے بیج کو پھپھوندی کش ادویات کے محلول ( 0.2 فیصد) میں 3 تا 5 منٹ تک بھگو کر کاشت کریں۔

سی پی 77-400 ، ایچ ایس ایف240، سی پی43-33، سی پی 72-2086، سی پی ایف237، ایچ ایس ایف242- اور سی پی ایف243- کماد کی ترقی دادہ اگیتی اقسام ہیں جبکہ ایس پی ایف 213، ایس پی ایف 234، ایس پی ایف 245 اور سی پی ایف 246۔( ایس پی ایف234 صرف راجن پور،بہاولپور اور رحیم یار خان کے ضلعوں کے لیے موزوں ترین قسم ہے) درمیانی تیار ہونے والی اقسام ہیں۔ پچھیتی تیار ہونے والی قسم سی او جے 84 ہے جبکہ ممنوعہ اقسا م ٹرائیٹان، سی او ایل54، سی او 1148(انڈین) سی او ایل 29، سی او ایل 44، بی ایل4 ، بی ایف 162،ایل 116، ایل 118، ایس پی ایف 23اور بی ایف 162 ہیں۔ گنے کی زیادہ اور منافع بخش پیداوار حاصل کرنے کے لیے شرح بیج کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ گنے کے بیج کا اگاؤ باقی فصلوں کی نسبت بہت کم ہوتا ہے۔ اگربیج سفارش کردہ مقدار سے کم استعمال ہوتو فی ایکڑ گنوں کی تعداد کم رہتی ہے جس سے فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے بیج ہمیشہ پوری مقدار میں ڈالنا چاہیے ۔

بروقت کاشت اور دیگر موزوں حالات میں چار آنکھوں والے 13 تا 15 ہزار سمے یا تین آنکھوں والے 17 تا 20 ہزار سمے ڈالنے چاہئیں۔ یہ تعداد موٹی اقسام کا تقریباً 100 تا 120 من اور باریک اقسام کا 80 سے 100 من بیج استعمال کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔ کاشت میں تاخیر ہونے کی صورت میں بیج کی مقدار میں 10 تا 15 فیصد اضافہ کر لینا چاہیے۔ کماد کی ستمبر کاشت کے لیے موزوں ترین وقت یکم تا 30 ستمبر ہے۔ گنے کی کاشت میں تاخیر سے گنے اور چینی کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

عام طور پر کماد کی کاشت دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ خشک طریقہ کاشت زیادہ موزوں ہے کیونکہ اس طریقہ کاشت سے زیادہ نمکیات والی یا سخت زمین سے بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس طریقہ کاشت میں بجائی کے فوراً بعد پانی لگا دیں اور کھیت وتر آنے پر سیاڑوں کی وٹوں پر ہل چلا کر سہاگہ پھیر دیں۔ اس طریقہ کاشت میں کھیت تیار ہونے پر پانی لگائیں اور وتر آنے پر ہل اور سہاگہ چلائیں اور سیاڑ نکال کر فوراً بجائی کر دیں سہاگہ لگا کر کھیت کو اگاؤ مکمل ہونے تک کھلا چھوڑ دیں۔

زمین کی تیاری گہرے ہل (مولڈ بولڈ یا چیزل) سے کریں پھر عام ہل چلا کر سہاگہ دیں اور رجر کے ذریعے 10 تا 12 انچ گہری کھیلیاں 4 فٹ کے فاصلہ پر بنائیں اور اس کیلئے گنے کا مخصوص رجر استعمال کریں کیونکہ اس رجر سے کھیلی ہی میں 4انچ کے فاصلے پر 2چھوٹے سے سیاڑ بن جاتے ہیں جن میں سموں کو الگ الگ اور صحیح پوزیشن میں رکھا جاسکتا ہے جس سے اگاؤ اور فصل کا جھاڑ بہتر حاصل ہوتا ہے۔ ان کھیلیوں میں پہلے فاسفورس اور پوٹاش کھاد ڈالیں اور پھر بیج ڈال کر مٹی کی ہلکی سی تہ سے ڈھانپ دیں مٹی ڈالنے کے لیے سہاگہ نہ چلائیں بلکہ ہاتھ یا پاؤں سے مٹی ڈالیں اور پھر پانی لگا دیں جب گہری کھیلیاں خشک ہونے لگیں تو پھر پانی لگادیں اس طرح کماد کے اگنے تک حسب ضرورت پانی دیتے رہیں۔

بعدازاں شگوفے مکمل ہونے پر کلیٹویٹر سے کھیلیاں توڑ کر کھیت کو برابر کر دیں اور مناسب وقت پر اسی رجر سے مٹی چڑھا دیں۔کماد کی بجائی میں سیاڑوں کا فاصلہ نہ تو اتنا زیادہ ہو کہ پودوں کی سفارش کردہ فی ایکڑ تعداد کم نہ رہ جائے اور نہ ہی اتنا کم ہوکہ پودے اچھی طرح پروان نہ چڑھ سکیں۔ اچھی پیداوار کے لیے سیاڑوں کا درمیانی فاصلہ 4 فٹ ہونا چاہیے، کھلے سیاڑوں میں پودوں کو نہ صرف روشنی اور ہوا وافر مقدار میں ملتی ہے بلکہ گوڈی بھی بہتر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کماد کو گرنے سے بچانے کے لیے مٹی اچھی طرح چڑھائی جا سکتی ہے اگر ستمبر کاشتہ فصل کی بجائی میں تاخیر ہو جائے تو یہ فاصلہ 4فٹ کم کرکے 2.5 سے 3 فٹ کردیں۔4فٹ کھلے سیاڑوں میں کماد کی ستمبر کاشت میں سورج مکھی ، مسور، ماش اور پیاز کی مخلوط کاشت کے بہت اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔

ستمبر کاشتہ کماد میں ان فصلوں کی مخلوط کاشت سے کاشتکار اضافی آمدن حاصل کرسکتے ہیں۔ بہاریہ کاشتہ (فروری) کماد میں دالوں کے علاوہ مخلوط فصل ہرگز کاشت نہ کریں۔کھادوں کا استعمال مختلف اقسام کی غذائی ضروریات ، زمین کی زرخیزی اور مٹی کی دیگر کیمیائی اور طبعی خواص کو مدنظر رکھ کر کرنا چاہیے۔کماد کے کاشتکار تجزیہ اراضی کی بنیاد پر منافع بخش اور موثر استعمال سے اپنے پیداواری اخراجات میں کمی کریں۔ زمین کی پیداواری صلاحیت اورزمین کی زرخیزی کو بحال رکھنے کے لیے اس میں گوبر کی گلی سڑی کھاد بحساب 4-3 ٹرالیاں فی ایکڑ ضرور ڈالیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو 2 تا 3 سال کے بعد سبز کھادوالی فصل (گوارہ، جنتر یا برسیم وغیرہ) کو زمین میں دبا دیں اور پانی لگا ئیں سبز کھاد دبانے کے30 تا 35 دن بعد کماد کاشت کے لیے زمین کو اچھی طرح تیار کریں تاکہ سبز مادہ زمین میں اچھی طرح گل سڑ جائے۔

گنے کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لیے تقریباً 69 کلوگرام نائٹروجن، 46 کلوگرام فاسفورس اور 46 کلوگرام پوٹاش فی ایکڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔ فاسفورس اور پوٹاش کی سفارش کردہ تمام مقدار کاشت کے وقت سیاڑوں میں ڈال دیں جبکہ سفارش کردہ نائٹروجنی کھاد کا ایک تہائی حصہ نومبر کے شروع میں اور بقیہ نائٹروجن کھاد کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ مارچ کے آخر فصل کا اگاؤ مکمل ہونے پر اور دوسرا حصہ اپریل میں مٹی چڑھاتے وقت استعمال کریں۔ نائٹروجنی کھادوں کے اچھے نتائج کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ نائٹروجن کھاد کی آخری قسط ماہ مئی کے آخر یا جون کے وسط تک مکمل کرلی جائے۔

ستمبر کاشتہ کماد کی بھرپورپیداوار حاصل کرنے کے لیے2000 ملی میٹر ( 80 انچ) پانی درکار ہوتا ہے جو کہ تقریباً 20 دفعہ آبپاشی کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ گنے کی فی ایکڑ زیادہ پیداوار آبپاشی کیلئے درکار پانی کی بروقت فراہمی کی مر ہون منت ہے۔ پانی کی کمی یا بروقت آبپاشی نہ کرنے سے گنے کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہوجاتی ہے۔ ستمبر کاشتہ کماد کو دیئے گئے شیڈول کے مطابق آبپاشی کر کے اور مطلوبہ مقدار میں پانی کی فراہمی سے بہتر پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ کاشتکار کماد کی فصل کو پانی لگانے سے پہلے ریڈیو، ٹی وی یا انٹرنیٹ سے موسم کی پیشین گوئی بارے معلومات حاصل کرلیں۔

موسم کی شدت اور بارشوں کو مدنظر رکھ کر آبپاشی کے اس مجوزہ شیڈول میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ ستمبر کاشتہ کپاس کی فصل کو تقریباََ120آبپاشیوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ستمبر سے اکتوبر تک 20تا30دن کے وقفہ سے 3آبپاشیوں،نومبر سے فروری تک 30دن کے وقفہ سے 3آبپاشیوں ،مارچ سے اپریل تک 20تا30دن کے وقفہ سے 2آبپاشیوں ، مئی سے جون تک 10تا12دن کے وقفہ سے 6آبپاشیوں ، جولائی سے اگست تک 15تا20دن کے وقفہ سے 3آبپاشیوں اور ستمبر سے اکتوبر تک 20تا30دن کے وقفہ سے 3آبپاشیوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔پاکستان میں آبپاشی کیلئے دستیاب پانی کی فراہمی میں روز بروز کمی واقع ہورہی ہے جبکہ ستمبر کاشتہ کماد کی پانی کی ضروریات باقی فصلوں کے مقابلہ میں کافی زیادہ ہے۔

پانی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقاتی ادارہ برائے کماد، فیصل آباد نے متبادل کھیلیوں (یعنی ایک کھیلی چھوڑ کر) آبپاشی کا یہ نیا طریقہ متعارف کروایا ہے۔ اِس طریقہ آبپاشی سے 40 فیصد پانی کی بچت ہو جاتی ہے اور پیداوار متاثر ہونے کا احتمال بھی کم ہوتاہے۔ خشک طریقہ کاشت میں پہلی گوڈی اندھی گوڈی کہلاتی ہے جو فصل کے اگاؤ سے پہلے کی جاتی ہے۔ اگاؤ مکمل ہونے پر پہلے یا دوسرے پانی کے بعد سیاڑوں کے درمیان ہل، ترپھالی یا کلیٹویٹرسے گوڈی کریں جبکہ پودوں کے درمیان کسولہ یا کھرپہ استعمال کریں جب تک پودے پھیل کر سیاڑوں کو ڈھانپ نہ لیں تو گوڈی و نلائی کا عمل جاری رکھیں۔

ستمبر کاشتہ کماد کی فصل میں مٹی چڑھانے کا عمل اپریل کے آخر تک مکمل کریں۔ کماد کی فصل میں بروقت مٹی چڑھانے کے عمل سے نہ صرف پودوں کو سہارا ملتا ہے بلکہ بروقت زیادہ شاخیں نکلنے سے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے رجر استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس وقت ٹریکٹر سے کماد کی فصل کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا خصوصاً اس وقت تک فصل کا مطلوبہ جھاڑ بن چکا ہوتا ہے اس کے علاوہ مٹی چڑھانے سے گورداسپوری بورر کا پروانہ بھی زمین سے باہر نہیں نکل سکتا۔ گنے کی فصل میں مٹی نہ چڑھانے سے جو شگوفے دیر سے نکلتے ہیں وہ خوراک لینے کے باوجود پیداوار میں اضافے کا باعث نہیں بنتے۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے کیمیائی ادویہ موثرہتھیار ہیں اور گنے کی فصل پر ان کی افادیت مسلمہ ہے۔

پاکستان میں گنے پر جن ادویہ پر تجربات کئے گئے ہیں ان میں یوں تو کئی ایک موثر پائی گئی ہیں لیکن ایمیٹرین + ایٹرازین زیادہ موثر ہے یہ کماد میں چوڑے پتوں والی اور گھاس نما (ماسوائے ڈیلا) قسم کی جڑی بوٹیوں کا خاتمہ کرتی ہے۔ 1 کلو گرام کو کماد کی بجائی کے 14 – 15 دن بعد دوسرا پانی لگا کر 24 گھنٹوں کے اندر سپرے کریں۔ میرازمین کیلئے دوائی کی صحیح سفارش کردہ مقدار 80 ملی لِٹر فی ایکڑ جبکہ بھاری زمین کیلئے 100 ملی لِٹر فی ایکڑ ہے۔ سپرے کیلئے دستی مشین کی صورت میں 100 لِٹر پانی فی ایکڑاور ٹریکٹر بوم کیلئے 100 تا 120 لِٹر پانی فی ایکڑ استعمال کریں۔ ہر ایکڑ کیلئے ڈرم میں اکٹھی دوائی کا محلول تیار کر لیا جائے اور پھر یکساں مقدار استعمال کی جائے۔