مزید باغبانی

انگور کی کاشت اورخصوصیات

انگور کا پھل اپنی غذائیت کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس پھل میں انسانی جسم کے لئے اہم غذائی اجزا کیلشیم، فاسفورس، آئرن اور وٹامن بی پائے جاتے ہیں۔ انگور کا جوس نظام انہضام اور گردوں کی صفائی کے لئے انتہائی مفید ہے۔ انگور کی کاشت سطح سمندر سے 300 تا 5000 فٹ تک کامیابی سے کی جاسکتی ہے۔انگور کی نشوونما کے لئے خشک اور ٹھنڈے علاقے زیادہ موزوں ہیں۔ پاکستان میں صوبہ بلوچستان انگور کی کاشت کے لحاظ سے مشہور ہے جبکہ صوبہ پنجاب کا پوٹھوہاری علاقہ مثلاً خوشاب، اٹک، چکوال، جہلم اور راولپنڈی انگور کی بڑے پیمانے پر کاشت کے لئے بہترین خیال کئے جاتے ہیں۔ انگور کی بیل کافی حد تک کم اور زیادہ درجہ حرارت برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ موسم گرما میں ہونے والی بارشیں انگور کے پھل کو نقصان پہنچاتی ہیں جن کی وجہ سے پھل پھٹ جاتا ہے اور اسے پھپھوندی لگ جاتی ہے۔
انگور کی کاشت کے لئے ہلکی میرا تا بھاری زمین موزوں ہے۔ ہلکی میرا زمینوں پر پھل جلد پک کر تیار ہوتا ہے جبکہ چکنی مٹی والی زمین میں پھل دیر سے پکتا ہے اور اس کی کوالٹی بھی متاثر کن نہیں ہوتی۔ پنجاب میں انگور کی مشہور اقسام پرلٹ، عناب شاہی، وائٹ سیڈ لیس، ریجینیاء، کنگزروبی، فلیم سیڈ لیس، تھامسن سیڈ لیس یا سلطانینہ ہیں۔ عام طور پر انگور کے پودے کی افزائش بذریعہ قلم کی جاتی ہے موسم بہار میں ایک سال پرانی شاخ بطور قلم استعمال کی جاتی ہے۔ انگور کی افزائش کے لئے استعمال کی جانے والی شاخ خشک نہیں ہونی چاہیے اور قلموں کی لمبائی 20 تا 25 سینٹی میٹر اور موٹائی کم از کم پنسل کے سائز جتنی ہونی چاہیے۔ قلم کا زیادہ حصہ زمین میں دبایا جائے اور اس کی آنکھیں (چشمے) زمین سے باہر رکھنی چاہئیں۔ قلموں میں جڑ پیدا کرنے کی شرح میں اضافہ کے لئے جڑ پیدا کرنے والے ہارمون (IAA اور IBA)سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ انگور کی قلمیں مناسب سائز کی پلاسٹک تھیلیوں میں لگا کر پودوں کی افزائش کی جاسکتی ہے۔ اس طرح تیار کیے جانے والے پودے موسم برسات کے دوران باغ یا کسی بھی تیار جگہ پر منتقل کیے جاسکتے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے پوٹھوہاری علاقہ میں زیادہ تر باغات کی پرورش اور کاشت کا انحصار باشوں پر ہوتا ہے کیونکہ اس علاقہ میں پنجاب کے میدانی علاقوں کی نسبت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جو کہ انگور کی بڑے اور تجارتی پیمانے پر کاشت کے لئے مفید ہیں۔ تجارتی پیمانے پر انگور کی کاشت کے لئے آبپاشی کے جدید نظام ڈرپ اریگیشن کی مدد لی جاسکتی ہے۔ اس نظام آبپاشی کے تحت کم مقدار میں دستیاب پانی کو پودوں کی ضرورت کے مطابق استعمال کیا جاسکتا ہے اس طرح وسیع پیمانے پر انگور کی کاشت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ موسم گرما میں انگور کے پودوں کو 10 تا 15دن کے وقفہ سے پانی دیا جائے جبکہ موسم برسات میں اس دورانیہ کو پودوں کی ضرورت کے مطابق بڑھایا جاسکتا ہے۔ پھل پکتے وقت آبپاشی بند کردینی چاہیے کیونکہ اس سے پھل پکنے میں تاخیر ہوتی ہے اور پھل کی نشوونما اور سائز بھی متاثر ہوتا ہے۔
انگور کی بہتر پیداوار حاصل کرنے کیلئے انگور کے پودوں کو مناسب خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو کہ دیسی و کیمیائی کھادوں کی صورت میں پودوں کی عمر کے لحاظ سے استعمال کی جاتی ہے۔ سردیوں کے موسم میں گوبر کی گلی سڑی کھاد 6 تا 10 ٹن فی ایکڑ (15 تا 20 کلو گرام فی پودا) ڈالنی چاہیے۔ ہلکی اور کمزور زمینوں پر امونیم سلفیٹ کھاد بحساب ایک کلو گرام فی پودا استعمال کرنے سے پودے کی نائٹروجنی اجزاء کی ضرورت کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
انگور کی بیلیوں کی کانٹ چھانٹ یا شاخ تراشی پیداوار میں اضافے کے لئے اہم ہے۔ سالانہ بنیادوں پر پودوں کی بڑھوتری کو مدنظر رکھتے ہوئے شاخ تراشی کا عمل کیا جائے۔ شاخ پر دو چشمیں چھوڑ کر باقی تمام شاخیں کاٹ دی جائیں۔ شاخ تراشی کا عمل پودے کی مقصدیت اور جگہ کی وسعت کے مطابق کیا جائے۔ پھل دار پودوں پر گچھوں کی تعداد کو مناسب رکھا جائے تو فی پودا چھ تا دس گچھے بہتر پیداوار کے لئے کافی ہوتے ہیں۔
انگور کے پودے کی عمر تقریباً چالیس سے ساٹھ سال ہوتی ہے۔ انگور کی بیل عموماً 3 تا 4 سال میں پھل دینا شروع کردیتی ہے۔ پھل کی برداشت اس وقت کی جائے جب پھل مناسب سائز کا ہوجائے اور پک بھی جائے۔ گچھے قینچی سے کاٹنے اور ان کو ٹوکری یا کریٹ میں اس طرح رکھیں کہ پھل زخمی نہ ہو۔ انگور کے پھل کو پیک کرتے وقت خراب دانے نکال دینے چاہیے تاکہ باقی پھل ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہے۔پھل کی برداشت کے بعد اچھی قیمت حاصل کرنے کے لئے جلد از جلد قریبی فروٹ منڈی میں پہنچانا چاہیے۔