پولٹری

پولٹری کی صنعت اور خدشات

پولٹری کی صنعت کسی بھی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت جنوبی ایشیا کے ممالک میں دیگر ممالک کی نسبت تیزی سے فروغ پانے والی صنعتوں میں شمار ہوتی ہے۔

 پاکستان میں ٹیکسٹائل کے بعد دوسری بڑی صنعت پولٹری کی ہے جس میں اب تک ۰۰۳ ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری سے ۸۲ ہزار سے زائد پولٹری فارم بن چکے ہیں کہ جہاں ۲۳ لاکھ سے زائد مرغیاں پالی جاتی ہیں۔ ۳۲ لاکھ افراد کا براہ راست روزگار پولٹری انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ جبکہ درجنوں نئے پراجیکٹ شروع کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں مرغی کا استعمال فی کس سالانہ ۶ کلو جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ۱۴ کلو اور دیگر ممالک میں ۷۱ کلو ہے۔ ۳۵۹۱ءمیں جب پاکستان میں پٹرول پندرہ پیسے فی لیٹر تھا اس وقت بکرے کا گوشت سوا روپے کلو اور دیسی مرغی کا گوشت چار روپے کلو تھا۔ اس زمانے میں مرغی کھانا امیروں کی شان سمجھی جاتی تھی لیکن ولایتی مرغی نے پروٹین سے بھرپور مرغی کا گوشت سستا ترین کر دیا۔
پولٹری انڈسٹری سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پولٹری انڈسٹری کا مستقبل بہت روشن ہے۔ دنیا میں اس وقت حلال مصنوعات کا سالانہ کاروبار ۲۳۶ ارب ڈالر ہے جس میں سے اگر پاکستان ایک فیصد بھی حاصل کر لے تو اس کی سالانہ برآمد چھ ارب ڈالر سے بھی زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں آسٹریلیا کی مصنوعات کی جگہ پاکستانی پولٹری کی مصنوعات زیادہ پسند کی جا رہی ہیں۔ حکومت حوصلہ افزائی کرے تو برآمدات میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن آئین میں اٹھارویں ترمیم سے قبل پولٹری کے لیے درآمد کی جانے والی مشینری سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی سے مستثنیٰ تھی لیکن جب صوبوں کو محکمے منتقل کیے گئے تو اس رعایت کا خاتمہ کر دیا گیا اور پولٹری کی مشینری پر بھی سولہ فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی جس کی وجہ سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی پولٹری انڈسٹری کو دھچکا لگا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے بگڑتے ہوئے تعلقات سے بھی پولٹری کی صنعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کی کل پولٹری صنعت کا ۰۸ فیصد انحصار امریکہ سے درآمد شدہ چکن فلوکس پر ہے۔ جبکہ انڈسٹری سے متعلقہ مشینری اورویکسین بھی امریکہ سے ہی درآمد کی جاتی ہے۔

امریکہ سے درآمد شدہ چکن بے بی ۸۳ سے ۰۴ دنوں میں جوان ہو کر کھانے کے قابل ہو جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں تیار کردہ چکن (دیسی مرغی) بے بی کی قسم ایک سال میں تیار ہوتی ہے۔ اگرچہ اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں ۰۰۶۱ ایکٹر رقبے پر پھیلے ”نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ کونسل (نارک) سنٹر میںاپنا پیرنٹ فلوک بنانے کے تجربات ہو رہے ہیں مگر وہ امریکی فلوک سے بہت پیچھے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انڈسٹری میں ابھی مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت کے ساتھ نجی شعبہ کے افراد اور ادارے بھی تحقیقی سنٹر کے قیام میں سرمایہ کاری کریں تو پاکستانی سائنسدان بھی پیرنٹ فلوک تیار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ویکسین کی مقامی تیاری کے لیے بھی پاکستان میں کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ نجی شعبہ کی ان دو شعبات میں شمولیت سے پاکستان کی پولٹری کی صنعت میں انقلاب آسکتا ہے۔ اور یورپی یونین میں پولٹری مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے یہ آسانی سے برآمد ہو سکتی ہیں اور پاکستان بڑی مقدار میں زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ ویسے بھی یورپی یونین پولٹری پر اعشاریہ پینتیس فیصد رعایت بھی دیتی ہے۔
پاکستان میں جدید پولٹری کی صنعت کا آغاز ۳۶۹۱ءمیں ہوا تھا۔ پی آئی اے نے اس صنعت میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ۵۶۹۱ءمیں کراچی میں پہلا جدید ہیچری یونٹ لگایا۔ لیکن اب یہی صنعت ملک کے چوبیس اعشاریہ سات فیصد گوشت کی طلب پوری کر رہی ہے۔ پاکستان میں ۰۰۳ ارب کی سرمایہ کاری میں سے ۰۰۲ ارب روپے کی سرمایہ کاری صرف پنجاب میں کی گئی ہے۔
اینیمل ہسبنڈری کے پروفیسر ڈاکٹر محمد سرورکا کہنا ہے کہ جدید تحقیق سے استفادہ کرکے پولٹری کی صنعت کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گوشت کے استعمال کی شرح دوسرے ممالک کی نسبت کم ہے اور تقریباً ۶ کلوگرام گوشت فی کس سالانہ استعمال کیا جاتا ہے، پولٹری کی صنعت میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور اس صنعت میں سرمایہ کاری سے قابل ذکر منافع کمایا جاسکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک میں کھلے پولٹری فارمز کے بجائے کنٹرولڈ فارمز کے فروغ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پنجاب میں تقریباً ۶ ہزار ۰۰۵ سے زائد کنٹرولڈ فارمز کام کر رہے ہیں۔
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے کنوینئر شاہنواز جنجوعہ کا پاکستان میں پولٹری کی صنعت کے فروغ کے حوالے سے کہنا ہے کہ حال ہی میں ہونے والی ایکسپو سینٹر کراچی میں لائیواسٹاک نمائش میں جہاں متعدد جانوروںکی نمائش کی گئی وہاں اس نمائش کے انعقاد کا مقصد لائیواسٹاک، ڈیری، فشریز اور پولٹری کے شعبے کوفروغ دینا بھی تھا جس کی مدد سے ملک میں لائیواسٹاک اور پولٹری کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ۵۲ سرمایہ کار ایک ارب روپے سے زائد کی فوری سرمایہ کاری کے لیے تیار ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں کی آب و ہوا مرغ بانی کے علاوہ شتر مرغ کی افزائش کے لیے بھی انتہائی موزوں ہے۔
پولٹری صنعت میں ہول سیلرز کی یونین کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں اگرچہ پولٹری کی صنعت میں بہت تیزی سے ترقی ہوئی لیکن اس کاروبار میں چند بڑے سرمایہ کاروں نے بڑی سرمایہ کاری کے ذریعے اس صنعت پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے، جو مرغی کی کل پیداوار سے لے کر اس کی ویکسین اور گوشت کی قیمت کو مقرر کرتے ہیں، جس سے پولٹری انڈسٹری بھی چند ہاتھوں میںسمٹتی جا رہی ہے۔ کیونکہ کپڑے کے بعد یہی پاکستان کی سب سے بڑی اور منفعت بخش صنعت ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے پولٹری صنعت میں بحران پیدا ہو رہا ہے۔ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ حکومت نے کبھی بھی اس شعبے پر توجہ نہ دی۔ نہ ہی کسی حکومت نے انڈسٹری کی بہتری کے لیے کوئی نمایاں اقدامات کیے اور نہ ہی پولٹری پالیسی کا اعلان کیا جاسکا ہے۔ ہول سیلرز کا کہنا ہے کہ پولٹری وہ واحد سیکٹر ہے جس کی قیمت میں اگر اضافہ ہوتا ہے تو کمی بھی کی جاتی ہے جبکہ گائے اور بکرے کے گوشت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں۔
اینیمل ہسبنڈری کے پروفیسر ڈاکٹر محمد سرورکا کہنا ہے کہ پولٹری کی صنعت کو ویکسین اور اپنا پیرنٹ فلوک تیار کرنے کے لیے ایک بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پولٹری انڈسٹری کے غیر ممالک پر ۰۸ فیصد انحصار کو ختم کرنا ہوگا۔