پولٹری

پولٹری جانوروں کی افزایش نسل

پولٹری جانوروں کی افزایش نسل کی وہ شاخ ھے جو ان پرندوں سے متئلق ھے جو عمومی طور پر انسانی خوراک کا حصہ ھیں، ان میں مرغی بظخ، کبوتر، بٹیر، ٹرکی، اور شتر مرغ وغیرہ شامل ھیں-

مرغیاں چونکہ اس صنعت کا غالب حصہ ھیں اس لیے عوام الناس پولٹری سے مراد مرغیاں ھی لیتی ھے اس لیے ھمارا موضوع بھی یہی ھے- انگریزی میں” چکن” ایک وسیع لفظ ھے، بچہ”چک” ، بالغ مرغی “ھین”، بالغ مرغا” روسٹر” اور لڑائی والا مرغا “کوک” کہلاتا ھے-

مرغیاں ازل سے ھمارے سماج کا حصہ رھی ھیں لیکن اج کی جدید پولٹری کا آغاز 1950 سے شروع ھوا 1960 تک امریکہ اور 1963 تک یورپ میں انکے خدوخال مکمل ھوچکے تھے- اور ابتک اسکی جینیٹکس پر کام جاری ھے-

دنیا میں قدرتی طور پر زیادہ دودھ دینے والی گائے (پاکستان میں ریڈ سندھی) زیادہ قدوقامت کے بیل (پاکستان میں بھا گ ناری،ساھیوال اور تھر/چولستانی) زیادہ گوشت والی بکرے کی نسل (بنگال گوٹ) پایئ جاتی ھیں –

ڈیری فارمنگ کے ماھرین نے زیادہ قدوقامت کے” بھاگ ناری” نسل کو آسٹریلین” ڈراٹ ماسٹر” سے کراس بریڈ کیا جس سے” ناری ماسٹر” نسل وجود میں آیئ اور اسی طرح امریکن جرسی بریڈ ،ھولیسٹین، فرایئسین اور دیگر نسلوں پر تجربات کیے گیے جس کی بدولت ان نیئ کراس بریڈ سے دو، تین سال میں ایک بہت بڑا بیل جو کچھ عرصہ قبل چار سے پانچ سال میں تیار ہوتا تھا مارکیٹ میں آیا ،زیادہ مقدارمیں دودھ دینے والی گائے تیار ھویئ جسکا مشاہدہ ھم سہراب گوٹھ کی مویشی منڈی میں بہت بڑے اور صحت مند جانوروں کی شکل میں کرتے ھیں- انکی بڑھوتری میں زیادہ عنصر انکی نسل کا ھوتا ھے – یا د رھے کہ دودھ کی زیادہ پیداوار دینے والی پیور بریڈ سے ایک وقت میں 60 کیلو دودھ حاصل کیا جاتا ھے-

اسی طرح قدرتی طور پر زیادہ گوشت اور زیادہ انڈے دینے والی مرغیوں پر اسی طرز پر تجربات کیئے گیئے جسکی بدولت گوشت اور انڈے کی کم وقت میں بہترین پیداوار ممکن ھویئ۔

تمام جاندار اشیاء کی طرح مویشیوں اور مرغیوں پر بھی بیماریاں خواء وہ وائرس کی شکل میں ھوں یا بیکٹیریا ، حملہ آور ھوتی ھیں ، جس طرح تیز رفتار گاڑی حادثہ کو صورت میں زیادہ نقصان ھو تا ھے اسی طرح ان تیزی سے گرو کرنے والے جانداروں کی قوت مزاحمت کم ھوتی ھے اور بیماری زیا دہ شدت سے حملہ آور ھوتی ھے، پییش بندی کے طور پر انکے ویکسین شیڈول پر پابندی سے عمل ھوتا ھے، ویکسسنیشن کے باوجود بسا اوقات نا مناسب صفایئ ستھرایئ ، غیر معیاری خوراک ،ناقص پانی اور وائرس کا بھیس بدل (میو ٹیشن) حملہ آور ھونا اور موسم کا شدت کی وجہ سے جانی نقصان ھو تا ھے۔

تمام جانداروں کی طرح جدید فارمنگ میں مرغیوں کی خوراک کا خاص اھتمام ھوتا ھے، فارمی چکن کی خوراک پر معترض لوگ یہ اکثر بھول جاتے ھیں کہ گھر پلنے والی “دیسی مرغیاں” با ھر گلی کی نالیوں سے کیا کچھ چگ رھی ھوتی ھیں، انسانی غلا ظت، کیڑے ھر قسم کے،نالی کا گندا پانی،کیچڑ کی تمام ترخوبیوں میں لتھڑ کر شام میں ایک عدد انڈہ جو ان کی اپنی بیٹ میں لتھڑا ھوا ھوتا ھے ڈربہ میں پاکر خوش ھو جاتے ھیں- اگر وہ بیمار ھوجائے تو ذبح کرتے ھیں یا پھر گھر میں کویئ فرد بیمار ھو تو ذبح کرتے ھیں اور اسکی “بو” کو طاقت کی سند تسلیم کرتے ھیں-

پولٹری فیڈ کے اجزاء میں 60 تا 65 فیصد غلہ (گرین) جو فصل کے سیزن کے مطابق ھوتا ھے،یعنی چاول گندم،مکیئ، جوار، وغیرہ یا پھر ان کا مجموعہ ۔ 18 فیصد پروٹین (انیمل اور ویجیٹیبل) ، کیلشیم، وٹامن،منرلز کی مقدار کو برابر کرنے کی فیڈ سپلیمنٹ (جیسے فوڈ سپلیمنٹ) دیا جا تا ھے۔ فیڈ فارمولا انٹرنیٹ پر موجود ھے دنیا کی کسی بھی فارمولیشن میں کہیں بھی اسٹیورایئڈ نہیں ملے گا،

( طب کی دنیا میں اسٹیورایئڈ کا استعمال وزن بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ اسٹیعمنہ بڑھانے کے لیے کیا جاتا ھے، اسی لیے کھلاڑی اس مھنگی ترین دوا کا استعمال کرتے ھیں جو کہ ممنوع ھے۔)

مذبح خانہ کا خون (بلڈ میل) پروٹین سورس کے طور پر چھوٹی مچھلیاں( فش میل) بھی پروٹین سورس کے طور پر استعمال ھوتی ھیں۔ ضمنن ایک بات بتا تا چلوں کہ مذبح خانہ سے جمع شدہ خون سے انسانی استعمال میں آنے والا پروٹین میتھا یئنن بنتا ھے جیسے اسپرین تارکول سےنکلتی ھے، دوا والا کیپسول نلی کی ھڈیوں سے بنتا ھے، ٹوتھ پیسٹ چونے سے اور ٹیلکم پاوڈر پتھر پیس کر تیار ھوتا ھے۔ کسی بھی ایک کیمکل کے بیسیوں استعمال ھیں، نمک کا تیزاب دوا میں بھی استعمال ھوتا ھے اور ٹوالیٹ صاف کرنے کے لیے بھی-

چونا فیڈ میں کیلشیم کی کمی، گڑ کا شیرہ انرجی کے لیے اور چوکرانرجی اور فلر کے طور دیا جاتا ھے۔

بیماری کی صورت میں وھی ادویہ استعمال ھوتی ھیں جو انسانوں میں ھوتی ھیں، اسی طرح شدید مرض کی صورت میں انجکشن بھی لگا یے جا تے ھیں، ۔

اب یہ سوال بہت عام ھے کہ یہ دیسی مرغی کی طرح بھاگتی کیوں نہیں، اگر بھاگنے والی مرغی چا ھیے تو اسی مرغی والے کے پاس رنگین مرغیاں بھی ھوتی ھیں جسے وہ دیسی کہتا ھے، یہ دیسی نہیں فارمی ھیں، انکے چوزے بھی اسی مشین سے نکلتے ھیں اسی طرح انکی ویکسین ھوتی ھے اور یہ وھی فیڈ کھاتے ھیں جو سفید فارمی مرغی کھا تی ھے یہ 10 سے 12 ھفتہ کے ھوتے ھیں فرق صرف بریڈ یعنی نسل کا ھے۔ یہ 250 گرام کی “دیسی” کالی انگریز 400 روپے میں خرید کر ” دیسی سواد” لیکر مزے سے سوپ پیتے ھیں-

لینڈ کروزر ٹی ذیڈ بہت مہنگی گاڑی ھے مگر آپ اسپر وزن نہیں لاد سکتے اس کے لیے آپ کو لوڈنگ ٹرک لینا پڑےگا- ریسنگ کار کو آپ پہاڑ یا ریگستان میں نہیں چلا سکتے ، قربا نی کے 10 لاکھ کے جانور سے آپ دوڑنے کی توقع مت کریں، یہ اسپیشل بریڈ مرغی گوشت کی پیداوارکے لیے تیار کی گئی ھے ریسنگ بریڈ نہیں- اگر آج یہ سستا اینیمل پروٹین موجود نہ ھوتا تو گایئے کا گوشت 1000 روپے کیلو اور بکرا صرف دیکھنے کے لیے ھوتا-

ھم سب ایک عجیب علت کا شکار ھیں اسی کویئ بات جس میں چٹخارہ ھو بغیر جانے بوجھے، بنا تصدیق اور اسکے نتاؑیج سے بے پرواہ ھو کر آگے بڑھا دیتے ھیں، خاص کر ھمارا میڈیا اس میں بہت آگے ھے- چند سالوں قبل ایک تیل بردار جہاز “تسمان اسپرٹ” کراچی کے ساحل کے قریب پر حادثہ کا شکار ھوا اور اس میں سے تیل رسنے لگا اور ساحل پرمردہ مچھلیاں نمودار ھویئں، ایک بہت بڑے اخبار کے بڑے خبری نے ریٹنگ کے چکر میں یہ خبر لگائی کہ کراچی میں تیل سے متاثرہ مچھلیاں فروخت ھو رھیں ھیں اس لیے عوام مچھلیاں نہ کھایئں- حالانکہ فشنگ ھمیشہ گہرے سمندر میں ھوتی ھے جہاں اسکا کوئی خدشہ نہیں تھا، بات صرف اتنی ھوئی کہ اس وقت کے چیرمین کے پی ٹی نے اس خبری کے الٹے سوال کرنے پرڈانٹ پلا دی تھی- بچارے مچھیرے مہینوں مالی پریشانی کا شکار رھے-

اس لیے اس کا خیال کریں کہ جو بات کی جا رھی ھے اسکا حوالہ ھو، کوئی متعلقہ فرد یا ادارہ اسکی تصدیق کرے یا اپنی رائے دے۔ ھمارے تبصرہ نگار تو بیک وقت صحافی،ماھر معاشیات ،دفاعی امور، سیاسیات، بین الاقوامی امور ،مذھبی امور، اور تمام سائنسی امور کے ماھر ھیں-