آم

آم کا باغات لگانے کیلئے خاص ہدایات

صوبہ پنجاب میں سال 2011-12 ء میںآم کے 2لاکھ75ہزار ایکڑ زیر کاشت رقبہ سے1.3ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی۔ اس طرح اوسط پیداوار 126.9من فی ایکڑ رہی ۔ پنجاب میں آ م کی کاشت کے مرکزی علاقوں میں ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازیخاں اور سرگودھا ڈویژن شامل ہیں جبکہ لاہور اور راولپنڈی ڈویژنوں میں بھی اس کی کاشت ہوتی ہے۔
آم کے باغات سے بھرپور پیداوار لینے کے لیے باغ لگاتے وقت زمین، آب و ہوا، پھل کی اقسام اور ذرائع آبپاشی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں آم کے باغات کی داغ بیل کے وقت ان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں ان ضروری امور کو قطعی طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

آم کے پودے موسم بہار (فروری ۔مارچ) اور موسم خزاں (ستمبر۔اکتوبر) میں لگائے جاتے ہیں۔ آم کی کاشت کے لئے سرد علاقے موزوں نہیں ہیں کیونکہ کورا اور لُو کم عمر پودوں پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ پودے لگانے سے پہلے زرعی لیبارٹری برائے تجزیہ اراضی سے زمین کا تجزیہ کروائیں کیونکہ زمین کے تجزیہ کے بغیر لگائے گئے آم کے پودے بعض دفعہ زمین کے ناموزوں ہونے کی وجہ سے ابتدائی چند سالوں بعد ہی ضائع یا کمزور ہو جاتے ہیں۔
آم کی کاشت مختلف اقسام کی زمینوں میں کی جا سکتی ہے۔ لیکن گہری اور زرخیز زمین جس میں پانی کا نکاس اچھا ہو اس کی کاشت کے لئے موزوں ہے۔ ریتلی زمین میں اس کے پودے اچھی طرح نشوونما نہیں پاتے جس سے پھل کی جسامت اور دیگر خصوصیات متاثر ہوتی ہیں۔ پودوں کا صحیح النسل اور تندرست ہونا نہایت ضروری ہے پودے ہمیشہ با اعتماد نرسری سے خرید کر لگانے چاہئیں۔ دو تین سال کے صحت مند پودے جو کہ تین چار فٹ قد و قامت کے ہوں تبدیل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

آم کا باغ عموماً مربع نما طریقہ سے لگایا جاتا ہے ۔ اس طرح پودے سے پودے اور لائن سے لائن کا فاصلہ یکساں ہوتا ہے۔ پودے لگانے سے پہلے زمین کو ہموار کرنے کے بعد نشان دے کر جہاں پودا لگانا مقصود ہو وہاں پودے لگانے سے تقریباً ایک ماہ قبل 90x90x90سینٹی میٹر کا گہرا گڑھا کھودا جائے۔ اس دوران اوپر کی 30سینٹی میٹر مٹی کی تہہ ایک طرف رکھیں اور نیچے کی60سینٹی میٹر مٹی الگ رکھیں۔ گڑھا دس سے پندرہ دِن کھلا رکھیں تاکہ ہوا اور دھوپ کے اثر سے مضر قسم کے جراثیم مر جائیں۔ اس کے بعد اوپر کی 30سینٹی میٹر مٹی کی تہہ کے برابر کھال کی بھل اور اتنی ہی مقدار میں گوبر کی گلی سڑی کھاد ملا کر گڑھا بھر دیں۔
خیال رکھیں کہ گڑھا بھرتے وقت ارد گرد کی زمین سے گڑھے کی تہہ تھوڑی سی اونچی رہے تاکہ پانی لگانے کے بعد گڑھے کی سطح نیچے بیٹھنے کی صورت میں مزید مٹی نہ ڈالنی پڑے۔وتر آنے پر پودے کی گاچی کے برابر گڑھا کھود کر شام کے وقت پودے لگا دیں۔ پودا لگاتے وقت اگر بوری پولی تھین یا پرالی گاچی کے ساتھ لپٹی ہو تو الگ کر دیں اور خیال رکھیں کہ ارد گرد کی مٹی دباتے وقت پوے کی گاچی نہ ٹوٹنے پائے۔ پودا لگانے کے فوراً بعد آبپاشی کریں۔ اگر نہری پانی کم ہو تو ٹیوب ویل کے پانی کو ملاکر یہ کمی پوری کی جا سکتی ہے بشرطیکہ ٹیوب ویل کا پانی باغ میں لگانے کے لئے موزوں ہو۔ موسم بہار میں عمل تبخیر کی وجہ سے پانی کا کافی اخراج ہوتا ہے۔
جس سے پودوں کی پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اس لئے آٹھ یا دس دن کے وقفہ سے آبپاشی کریں۔زیادہ بارشوں کی صورت میں یہ وقفہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ موسم سرما میں پودوں کو پانی کی بہت کم ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے تین یا چار ہفتے کے بعد آبپاشی کرنی چاہئے۔ البتہ کہر پڑنے کا امکان ہو توہلکی آبپاشی کر دی جائے۔ اس سے زمین کا درجہ حرارت نقطہ انجماد تک نہیں گرتا اور پودوں کے خلیوں میں پانی نہیں جمتا۔ چنانچہ پودے کُہر کے نقصان سے کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔

باغات میں کپاس، گنا، چری اور دھان کی فصلیں انتہائی نقصان دہ ہیں۔ البتہ نئے باغات میں فصلوں کی کاشت سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جڑی بوٹیوں کا تدارک بھی ہوتا ہے۔ اگر باغ میں فصلیں نہ بھی کاشت کی جائیں تو پھر بھی ہل چلانے اور گوڈی وغیرہ کرنے پر اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ باغ کے ابتدائی چند سالوں میں مٹر، شلجم، گوبھی، مولی، گاجر، دھنیا، ٹماٹر، چنے ، ٹینڈہ، کدو، کریلا، پیاز، مونگ، ماش اور گوارہ کی فصلیں کاشت کی جاسکتی ہیں۔اگر باغات میں برسیم بوئی گئی ہو تو ایک دو کٹایاں حاصل کرنے کے بعد اسے بطور کھاد زمین میں دبا دینا چاہئے۔آم کا باغ لگانے کے دو تین سال تک پودوں کے پیوندی جوڑ سے نیچے نکلنے والی شاخیں کاٹ دیں کیونکہ وہ پودے کی خوراک لے کر پیوندشدہ شاخ کی بڑھوتری میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ کورے اور لُو سے بچانے کے لئے چار پانچ سال تک کے پودوں کو سرکنڈا، پرالی یا شیشم کی شاخوں سے اچھی طرح ڈھانپنا ضروری ہے۔