مالٹا

کنو کے باغات کی بہتر دیکھ بھال

پاکستان میں ترشاوہ پھلوں میں کنو اپنی منفرد خصوصیات کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ خوش ذائقہ اور بہترین مٹھاس کی وجہ سے اسے پاکستان اورپاکستان سے باہر بہت پسند کیاجاتا ہے۔ وطن عزیز میں کنو کی بہترین کوالٹی کیلئے سرگودھا بہت مقبول ہے۔ کنو اپنا مقام اس وجہ سے پیدا کر چکا ہے کہ یہ سنگترے کی مخلوط قسم ہے جو کافی گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ برآمدی حوالہ سے یہ اہم پھل خصوصی توجہ کا مستحق ہے کیونکہ نئے تجارتی تناظر میں درآمدی ممالک کو تسلسل کے ساتھ اس کی ترسیل ضروری ہے۔ کنو میں بعض دوسرے پھلوں مثلاً آم اور سیب وغیرہ کی طرح قدرتی طور پر بے قاعدہ بارآوری کا رحجان پایا جاتا ہے۔

قدرتی بے قاعدہ بارآوری کے علاوہ بعض ایسی باتیں بھی ہیں جو کہ باغبان اگر نظرانداز کر دیں تو اس کی شدت میں کمی یا زیادتی ہو جاتی ہے۔ پھل کے سیٹ ہونے سے برداشت تک کے طویل عرصہ کے دوران باغات کے انتظامی و کاشتی امور اس طرح کیے جائیں کہ نہ صرف پیداواری حجم برقرار رہے بلکہ اعلیٰ خصوصیات کا حامل پھل غیر ممالک میں بھیج کر زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ باغبان حضرات کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو کہ پھل سیٹ ہونے سے لے کر برداشت تک پیداوار اور پھل کی خصوصیات میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔

کاشتی امور:۔ باغبان ترشاوہ باغات میں زیادہ ہل چلانے سے گریز کریں اور پھل توڑنے کے بعد جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کیلئے روٹا ویٹر استعمال کریں۔ باغات میں مخلوط فصلات کی کاشت سے گریز کریں۔ گرمیوں کے چارہ جات (جوار، باجرہ) اور سردیوں کے چارہ جات (برسیم، لوسرن اور فصل کپاس وغیرہ) ہرگز کاشت نہ کریں۔
خوراک:۔ زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے کیلئے باغات میں نامیاتی کھاد استعمال کریں اس کیلئے گوبر کی گلی سڑی کھاد 60 کلوگرام فی پودا (10 سال یا زیادہ عمر کے پودوں کیلئے) اگر دسمبر میں نہ ڈالی گئی ہو تو فوراً باغ میں جنتر کاشت کریں اور موسم برسات سے پہلے اسے زمین میں بذریعہ روٹاویٹر ملا دیں۔ یاد رہے کہ جنتر کی pH (تعامل) صرف دو ہے اور یہ زمین میں نامیاتی مادہ کی کمی پوری کرنے کے علاوہ زمینی تعدیلی کیفیت کو بھی درست حالت میں لانے کیلئے مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

آبپاشی:۔ جب پھل تیزی سے بڑھوتری کر رہا ہو تو مناسب وقفہ سے باغ کی آبپاشی کرتے رہیں کیونکہ ان دنوں پانی اور خوراک کی کمی پھل کے کیرے اور اس کی کوالٹی میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ لہٰذا موسم گرما میں ہلکا اور احتیاط سے پانی لگاتے رہیں۔چھوٹے باغات میں قطاروں کے ساتھ متوازی دائیں بائیں کھالیاں بنا کر سیراب کر سکتے ہیں۔ اس سے پانی دونوں طرف سے رس کر (seepage) کے ذریعے جڑوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سے پانی کی 60 سے 80 فیصد بچت ہو سکتی ہے۔

پودوں کی قطاروں کے درمیان کھال نکالنا:۔ یہ طریقہ عام طور پر 10 سال یا اس سے زیادہ عمر کے پودوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پانی پودوں سے براہ راست نہیں چھوتا۔ یہ طریقہ روایتی پرانے طریقے یعنی Flood Irrigation سے 4 گنا زیادہ باغ کے حامل رقبہ کو سیراب کر سکتا ہے۔

دور کا طریقہ:۔ اس طریقے سے چھوٹے یا بڑے پودوں کے ارد گرد پھیلاؤ کے مطابق دور بنا کر ایک دوسرے سے کھالیوں کے ذریعے ملا دیا جاتا ہے۔ یاد رہے پودوں کے تنے کے گرد 2-1 فٹ چوڑائی میں مٹی کی ڈھلوان بنا دیں تاکہ پانی تنے سے براہ راست نہ چھو سکے۔

قطرہ قطرہ یا ڈرپ اریگیشن:۔ ڈرپ سسٹم کے ذریعے کل فراہم کردہ پانی کا 85 فیصد سے زیادہ حصہ پودوں کو استعمال کیلئے میسر آتا ہے اور جڑوں کے نزدیک متوازن خوراک (کھاد) پہنچائی جا سکتی ہے۔ اگست کے آخر میں مون سون کی بارشیں اگر نہ ہوں تو اس کے بعد نائٹروجن کی تیسری قسط ڈالیں تاکہ پھل اپنا مناسب سائز حاصل کر سکے۔ 2 کلوگرام نائٹروفاس فی پودا بہترین کھاد ہے اس سے پودے کو نائٹروجن کے علاوہ فاسفورس بھی دستیاب ہو جاتی ہے اور جڑوں کی نشوونما بہتر طور پر برقرار رہتی ہے۔

نمی کو محفوظ کرنا:۔ گرمیوں میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے پانی بخارات کی شکل میں اڑ جاتا ہے اور زمین جلدی خشک ہو جاتی ہے۔ اس لئے باغبان درختوں کے پھیلاؤ تک گھاس پھوس کی تہہ بچھا دیں یا چھوئی یا کھوری سے گھیرے کو ڈھانپ دیں۔ اس سے زمین جلدی خشک نہیں ہو گی اور نمی زیادہ عرصہ تک برقرار رہے گی۔ زمینی درجہ حرارت معتدل رہے گا، پھل گرنے سے محفوظ رہے گا اور برداشت تک پھل کو زیادہ حجم کے ساتھ لے جایا جا سکتا ہے۔شروع جون تا وسط اگست میں پانی کا وقفہ کم سے کم رکھیں اور کھاد یا سپرے کا استعمال نہ کریں۔

نقصان رساں کیڑوں کا تدارک:۔ اچھی اور بہترین کوالٹی کے پھل کے حصول کیلئے کیڑوں اور بیماریوں کا تدارک بہت ضروری ہے اس کیلئے باغبان کو ہمہ وقت بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ ترشاوہ پودوں پر لیف مائنر، سٹرس سلا، تھرپس اور گدھیڑی وغیرہ حملہ کر کے پودوں کیلئے شدید نقصان کا باعث بنتے ہیں انہیں کنٹرول کرنے کیلئے مربوط طریقہ انسداد اختیار کریں اور صرف محکمہ زراعت (توسیع و پیسٹ وارننگ) کے فیلڈ عملہ کی سفارش کردہ زہریں استعمال کریں۔ باغات میں اندھا دھند زہروں کا استعمال نہ کریں۔ متوازن غذا کے استعمال اور غیر ضروری شاخیں کاٹنے سے پودوں کو کیڑوں کے حملہ سے بچایا جا سکتا ہے۔

تھرپس کا زیادہ حملہ اس وقت ہوتا ہے جب پھل کا سائز مٹر کے دانے کے برابر ہوجائے۔ پھل کا مشاہدہ کرنے پر اگر اس پر سنہری رنگ کے گول نشان خصوصاً پھل کی ڈنڈی کے قریب کوئی گول دائرہ بنا ہوا ہو تو تھرپس کی باغ میں موجودگی یقینی ہے۔ نقصان دہ کیڑوں کے تدارک کیلئے باغات کا معائنہ کرتے رہیں، کیڑوں کی پہچان کریں تاکہ بروقت اور صحیح کیڑے مار زہر استعمال کی جا سکے۔

پھل کی مکھی تیار پھل پر حملہ کر کے اس میں انڈے یتی ہے جس سے پھل اندر سے کمزور ہو کر گر جاتا ہے۔ اس کے تدارک کیلئے روئی کو میتھائیل یوجینال میں بھگو کر سوراخ شدہ بوتلوں / ڈبوں میں رکھ دیں تاکہ نر اس میں پھنس جائیں اور مادہ کو کنٹرول کرنے کیلئے پروٹین بائیڈرولائیسیٹ 300 سی سی اور ٹرائی کلوروفاس 10 سی سی میں 690 سی سی پانی ملا کر ایک لائن چھوڑ کر دوسری لائین میں ایک پودا چھوڑ کر دوسرے پودے پر ایک مربع میٹر جگہ پر سپرے کریں۔ خراب اور گلا سڑا پھل زمین میں دبا دیں تاکہ نئے پروانے نہ نکل سکیں۔ یہ عمل کرنے سے پھل کو تندرست و صحتمند حالت میں برداشت کے مرحلہ تک لے جایا جا سکتا ہے۔

بیماریاں اور ان کا تدارک:۔ گرم موسم میں پودوں کی فعالیت کم ہو جاتی ہے جس سے باغات پر بیماریوں کے جراثیم متحرک ہو جاتے ہیں۔ باغبانوں کو چاہیے کہ جراثیم کو متحرک ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیں۔ اس کے لئے محکمہ زراعت (توسیع و پیسٹ وارننگ) کے فیلڈ عملہ کی سفارش کردہ پھپھوند کش زہریں سپرے کریں۔

پھل کی تیاری کا مرحلہ:۔ نومبر، دسمبر میں باغات کو پانی کم لگائیں اور کسی بھی زہر کا استعمال نہ کریں تاکہ زہروں سے پاک پھل حاصل کیا جا سکے۔ پھل کی برداشت کلپر کے ذریعے کریں۔ ڈنڈی پھل کے نزدیک بٹن سے کاٹ دیں اور پتے ساتھ ہرگز نہ آنے دیں۔ پھل کو براہ راست نیچے نہ پھینکیں بلکہ کپڑے یا تھیلے کا استعمال کریں۔ برداشت کے بعد پھل کو ٹھنڈی اور خشک جگہ پر رکھیں۔ درج بالا تمام امور پھل سیٹ ہونے سے لے کر برداشت تک بہت ضروری ہیں اس لئے باغبان حضرات ان کا خیال رکھیں تاکہ وہ بہتر پیداوار حاصل کر کے زیادہ آمدن حاصل کر سکیں۔